پاکستان کی فکری بنیادوں کی بازیافت
یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ ایک قوم جو تاریخ کے دعوے سے بنی تھی، آج تاریخ سے منہ موڑ چکی ہے۔ جس تحریک نے ہمیں آزادی دی، وہ اب نصابی حوالوں میں محض ایک تہوار ہے، اور جس شخص نے ایک قوم کا خواب دیکھا تھا، اس کی سب سے اہم تقریر کو سننے، پڑھنے یا ماننے کا جرم بغاوت کے زمرے میں آ چکا ہے۔ آج جب کوئی مساوات، رواداری، یا آئینی برابری کی بات کرے تو گویا وہ ‘پاکستانیت’ کے دائرے سے باہر شمار ہوتا ہے۔
ہم اس وقت ایک ایسے تضاد سے دوچار ہیں جہاں دلیل کی جگہ جذبات نے، آئین کی جگہ فتوے نے، اور سیاست کی جگہ پیشوائیت نے لے لی ہے۔ ہم ہر معاملے میں “قومی بیانیہ” کا رونا روتے ہیں، لیکن کوئی ہمیں یہ بتانے والا نہیں کہ وہ بیانیہ آخر کس نے طے کیا؟ اور کب؟ اور کیوں؟
کیا ریاست کے تشخص کا تعین وہ لوگ کریں گے جنہوں نے ریاست کے قیام کی مخالفت کی؟ کیا نئی نسل کو وہ خواب دکھایا جائے گا جو خواب دراصل خواب ہی نہ تھا بلکہ ایک نرگسی وسوسہ تھا؟ پاکستان کا خواب تو وہ تھا جو قائداعظم نے 11 اگست 1947 کو بیان کیا تھا—ایک ایسا ملک جہاں کسی کو اس کے عقیدے، فرقے، زبان یا ذات کی بنیاد پر کم تر نہ سمجھا جائے۔ لیکن اس خواب کی تعبیر کو ہم نے ‘نظریہ پاکستان’ کی ایسی چادر میں لپیٹ دیا ہے جس کا کوئی سِرا ہی نظر نہیں آتا۔
یہی وہ لمحہ ہے جب ہمیں ایک اجتماعی فکری احتساب کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ کیا پاکستان محض ایک جغرافیہ تھا یا ایک عہد؟ اگر یہ ایک وعدہ تھا، تو ہم نے اس وعدے کو کب اور کیوں توڑا؟ اور اگر یہ محض مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خطہ زمین تھا تو پھر اس میں غیر مسلموں کی گنجائش کیوں رکھی گئی؟ قائداعظم نے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کی مخالفت کیوں کی؟ کیوں 1947ء کے پاکستان کا نصف حصہ غیر مسلم آبادی پر مشتمل ہونا تھا؟
ہم اپنے حالیہ حالات کا ماتم تو کرتے ہیں، مگر یہ نہیں دیکھتے کہ یہ سب اس وقت شروع ہوا جب ہم نے تاریخ کو اپنی مرضی سے کترنا، چھیلنا اور بگاڑنا شروع کیا۔ جب ہم نے آئین کی شق 25 کو صرف کتابوں میں بند رکھا، اور اقلیتوں کو ہر سطح پر “دوسرا” بنا دیا۔ ہم آج ایک ایسی ریاست بن چکے ہیں جو اپنے ہی شہریوں کو قبول کرنے سے قاصر ہے، اور جسے سب سے زیادہ خطرہ اپنے ہی آئین سے ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ ہر ریاست مذہب کو اپنی شناخت بنائے، لیکن یہ لازم ہے کہ ہر ریاست اپنے تمام شہریوں کو مساوی سمجھے۔ اگر ہم واقعی ایک زندہ، باوقار اور ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں مذہب، فرقے اور شناخت کی بنیاد پر اپنے شہریوں کو پرکھنے سے باز آنا ہو گا۔ ریاست کا کام فیصلے کرنا ہے، فتوے دینا نہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ماضی کی راکھ میں سچ کی چنگاری تلاش کریں۔ ہمیں وہ پاکستان تلاشنا ہے جو محرومیوں، تعصبات اور نفرتوں پر نہیں، بلکہ برابری، انصاف اور عقل پر مبنی ہو۔ ہمیں قائداعظم کا پاکستان چاہیے—وہ پاکستان جو آج کتابوں میں دفن ہے، لیکن دلوں میں زندہ ہو سکتا ہے، اگر ہم چاہیں۔
متعلقہ
Standing in the corner, by ; Maryam Sadiqa
From legislation to victimisation: By, Mona Farooq
چکوال کے خربوزے، از ، نبیل انور ڈھکو