آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

چکوال کے خربوزے، از ، نبیل انور ڈھکو

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

خربوزے کی فصل ایک نقد آور فصل ہے۔ بچپن سے لیکر اب تک اپنے کھیتوں میں خربوزے دیکھتے اور توڑتے آئے ہیں۔ چکوال کا دیسی اور بارانی خربوزہ کسی زمانے میں اپنی ساخت، خوشبواور ذائقے کے لحاظ سےبہت مشہور ہوتا تھا۔ ایک کھیت میں مختلف بناوٹ کے خربوزے ہوتے تھے۔ ایک کھردرا خربوزہ ہوتا تھا جو اندر سے سبز ہوتا تھا اور اس کا وزن تین چار کلو تک ہوتا تھا۔ انتہائی میٹھا اور انگریزی والا جوسی۔

چکوال میں ہمارے گاوں ڈھکو کے علاوہ تھنیل فتوحی اور جوا کھودے روڈ پر واقع دیہات کے خربوزے بہت مشہور تھے۔

دوسری فصل سمیٹنے کے برعکس خربوزے جب پک کر تیار ہو جاتے ہیں تو ان کو توڑنا ایک تفریح ہوتی ہے۔ خاص طور پر بچے ان کو توڑ کر بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ایک وقت تھا ہم گدھا گاڑی پر چکوال خربوزے بیچنے جاتے تھے۔ خربوزوں کی ایک بوری پچاس ساٹھ روپے کی بکتی تھی۔ پھر ٹریکٹر ٹرالی پر جاتے رہے اور پھر رکشوں پر۔ فروٹ منڈی پر بھی صبح صبح عجب سماں ہوتا تھا۔ تترال کے مشتاق فوجی کی آڑھت بہت مشہور ہے اور ان کی گالیاں بھی اتنی ہی مشہور ہیں جو وہ خریداروں کو دیتے ہیں۔ کیا ہی زندہ دل انسان ہیں۔ گالیاں کھا کر بھی خریدار برا نہیں مناتے حالانکہ ان کے لب غالب کے مصرعے والی محبوبہ کی طرح شیریں بھی نہیں ہیں کہ رقیب گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہ ہو۔

آج کل خربوزوں کا ایک تھیلا پندرہ سے اٹھارہ سو روہے کا بکتا ہے جس میں بیس پچیس کلو خربوزے ہوتے ہیں۔

خربوزے کی فصل کسانوں کے لیے اور خاص طور پر چکوال کے کسانوں کے لیے ایک انتہائی اہم فصل ہے۔ ایک تو اس کی بیجائی میں کھاد نہیں ڈالنی پڑتی اور دوسرا اس دیسی خربوزے کو پانی بھی نہیں لگانا پڑتا۔ اس کے پودے جیٹھ اور ہاڑ کی جھلسا دینے والی دھوپ کو برداشت کر کے بھی ہرے ہی رہتے ہیں۔

ہم نے بڑوں سے سن رکھا ہے کہ خربوزوں کی بیجائی پہلی وساکھ یعنی پندرہ اپریل کو کی جائے تو پہلی ہاڑ یعنی 14 جون کو خربوزے توڑنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ تاہم اب ہم پہلی وساکھ کی بجائے چیتر کے آخری دو ہفتوں میں خربوزوں کی کاشت کر دیتے ہیں۔ جیسے ہی خربوزوں کے پودے زمین سے نکلنا شروع ہوتے ہیں تو انکو ایک لال رنگ والی کیڑی جسے ہم بھبونی کہتے ہیں، کا حملہ درپیش ہوتا ہے۔ دو تین دفعہ اگر سپرے نہ کیا جائے تو لال رنگ کی یہ بھبونی نوزائدہ پودوں کے پتے چٹ کر جاتی ہے۔ دس سال قبل اس بھبونی کا وجود تک نہیں تھا۔ معلوم نہیں یہ کہاں سے ٹپک پڑی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ محکمہ زراعت کے کرتا دھرتا چکوال کے کسان کی اس اہم فصل کی ترقی کے لیے اقدامات کرتے اور آج چکوالی خربوزے کی ترقی دادہ اقسام ہوتیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس اہم فصل کی ترقی کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی۔ چکوال کا وہ دیسی خربوزہ جو اپنے ذائقے، مہک اور بناوٹ کے لحاظ سے مشہور تھا اس کا وجود ہی ختم ہو چکا ہے۔

آج کل دو قسم کے خربوزے چکوال میں لگتے ہیں اور ان دونوں کا چکوال سے کوئی تعلق نہیں۔ نیچے دی گئی تصاویر میں جو خربوزے نظر آ رہے ہیں یہ عارف آلا کا بیج ہے جو کسی زمانے میں بہت مشہور ہوتا تھا۔ اگر کھیت میں ایک آدھ عارف والا خربوزہ نکل آتا تو اس پر خربوزے توڑنے والے بچوں کی لڑائی ہو جاتی۔ ہر کوئی یہ چاہتا کہ یہ خربوزہ وہ خود کھائے۔ اب اس خربوزے کا بھی وہ ذائقہ نہیں رہا۔

دوسری قسم لکیروں والے خربوزے کی ہے جسے ہم ڈلیوں والا خربوزہ کہتے ہیں۔ نانی اماں سے یہ قصہ سنا تھا کہ آسمان سے جب خدا نے خربوزہ پھینکا تو کسی پیغمبر نے کیچ کر لیا۔ ان کے ہاتھوں کی چونکہ دس انگلیاں تھیں اس لیے خربوزے کی بھی دس ڈلیاں ہوتی ہیں۔ خربوزہ چھوٹا ہو یا بڑا اس پر دس ہی لکیریں ہوتی ہیں۔ تاہم اس ڈلیوں والے خربوزے کا ذائقہ بھی اتنا میٹھا نہیں جتنا کسی زمانے میں ہوتا تھا۔ پھر بھی خربوزوں کی یہ دونوں اقسام کسی نعمت سے کم نہیں۔ بعض خربوزے انتہائی میٹھے ہوتے ہیں، اکثر درمیانے میٹھے اور کچھ پھیکے۔

“بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ چکوال” کے سائنسدانوں کو چاہیے کہ وہ چکوال کی اس اہم فصل کی ترقی کے لیے اقدامات کریں۔ خربوزے کے مقامی سطح پر ایسے بیج تیار کیے جائیں جن کا نہ صرف ذائقہ اور پیداوار اچھی ہو بلکہ بیماری اور خشک گرم موسم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی ہو۔ ان اقدامات سے چکوال کے کسان کی معاشی حالت کافی حد تک بدلی جا سکتی ہے۔

آخر میں ایک بات ذہن میں رہے کہ ایک مشہور چکوالی کہاوت اس طرح ہے، “لسی آلے تے کھکڑی آلے بندے دا منہ ای بھیڑا ہوندا”۔ یعنی جس بندے کے گھر لسی اور خربوزہ ہو اس کا منہ ہر وقت بنا ہی رہے گا تاکہ کوئی لسی اور خربوزہ نہ مانگ لے۔