جنگ: بے گھر انسانوں کی داستاں
جب گولہ بارود کی آوازیں بچوں کی لوریوں کو دبا دیں، جب گھروں کی چھتیں ملبے کا ڈھیر بن جائیں، اور جب ماں باپ اپنے ننھے بچوں کو گود میں لیے اجنبی سرزمینوں کی طرف ہجرت پر مجبور ہو جائیں — تو سمجھ لیجیے کہ یہ جنگ صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہتی، بلکہ یہ انسان کی روح، اس کے گھر اور اس کی شناخت کو بھی جلا دیتی ہے۔
جنگ سے متاثر ہونے والوں کی زندگی محض ایک “نقل مکانی” نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک ایسا نہ ختم ہونے والا امتحان بن جاتی ہے جس میں کسی کو اپنی مرضی سے جینے، رکنے یا آگے بڑھنے کی آزادی حاصل نہیں رہتی۔ ان کے چہروں پر وہ خوف رقم ہوتا ہے جسے صرف وہی پڑھ سکتے ہیں جنہوں نے بمباری کی آوازیں اپنے کانوں میں اتاری ہوں، اور اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے کھوتے دیکھا ہو۔
گزشتہ دہائیوں میں شام، افغانستان، یمن، سوڈان اور فلسطین جیسے ممالک میں ہونے والی جنگوں نے لاکھوں انسانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں دس کروڑ سے زائد افراد مہاجرین یا پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ ہیں جن کا جنگ سے کوئی واسطہ نہیں تھا—نہ وہ اس کے ذمہ دار تھے، نہ اس کے حامی—پھر بھی وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
پناہ گزین کیمپوں کی خستہ حالی، خوراک اور ادویات کی قلت، تعلیم سے محرومی، معاشرتی بائیکاٹ، اور روزمرہ کے نفسیاتی مسائل—یہ سب ان کے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ جب وہ ایک نئی سرزمین پر پہنچتے ہیں تو یہ امید کرتے ہیں کہ شاید یہاں زندگی کو ایک نیا آغاز ملے گا، لیکن اکثر ان پر شک کی نظر ڈالی جاتی ہے، ان کی تکالیف کو تسلیم نہیں کیا جاتا، اور ان کے زخموں پر بے حسی کا نمک چھڑکا جاتا ہے۔
آج دنیا ایک عجیب دور سے گزر رہی ہے—جہاں انسانی جان کی قیمت ایک عدد یا خبر کی سرخی سے زیادہ نہیں رہی۔ طاقت، مفادات اور انا کی جنگ میں انسانیت کہیں کھو چکی ہے۔ دنیا تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر نہیں، بلکہ شاید اس کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس کے نتائج اور تباہ کاریاں تصور سے بھی بڑھ کر ہوں گی۔
اگر وقت کے حکمرانوں اور عالمی طاقتوں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے، اور اپنی انا کے بت نہ توڑے، تو اس دنیا کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اگر آج ہم نے نفرت، تعصب، ناانصافی اور طاقت کے غلط استعمال کے خلاف آواز بلند نہ کی، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ وہ ایک ایسی دنیا میں سانس لیں گی جہاں سکون ایک خواب ہو گا، اور انصاف ایک نایاب لفظ۔
اب بھی وقت ہے کہ انسانیت کو بنیاد بنایا جائے، پناہ گزینوں کو عزت و وقار کے ساتھ جینے کا حق دیا جائے، اور جنگ کے فیصلے بند کمروں میں نہیں، بلکہ انسانی ہمدردی کی روشنی میں کیے جائیں۔
متعلقہ
Is this Tip or the Iceberg itself ? By: Mona Farooq USA
یوں دکھاتے ہیں اسے چاک گریباں اپنا، غزل، جاوید صبا
بنگش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ، از طاہر احمد بھٹی