آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

اقبال ایک بڑے شاعر تھے

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

اقبال ایک بڑے شاعر تھے ، اس سے کون کم بخت انکار کر سکتا ہے۔ برصغیر کے دس بڑے شعراء کی فہرست سے کوئی ان کا نام قیامت تک خارج نہیں کر سکتا لیکن اس سے آگے انہیں فوق البشر مت بنائیے۔ رد استعمار کی علامت اقبال نہ کل تھے نہ آج ہیں۔ یہ تقریروں کی حد تک مبالغہ آرائئ جائز ہے کہ ان کی شاعری نے مسلمانان ہند کو ولولہ آزادی سے سرشار کر دیا اور ان کی شاعری نے برصغیر میں  آگ لگا دی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے

 
اگر  ٹیپو سلطان پر لکھے گئے چند اشعار سے ان کی انگریز مخالفت برآمد کرنی ہے تو مسولینی پر لکھی گئی نظم سے ان کی فاشزم سے محبت بھی نکل آئے گی۔ ویسے ہم نے تو بہت ڈھونڈا ، ہمیں کوئی عنوان ایسا نہ ملا  جو براہ راست انگریز حکومت یا سامراج مخالفت پر مبنی ہو ۔ باقی تشریح کرنے میں تو ان کے اشعار سے یار لوگوں نے جوہری توانائی کا فارمولا بھی نکال لیا ہے۔

 
ملکہ وکٹوریا کے قصیدے کی بات کریں تو جواب ملتا ہے کہ اقبال اس وقت نادان تھے۔ جارج پنجم کے قصیدے پر نظر کریں تو کندھے پر ہاتھ رکھ کر بتایا جاتا ہے کہ یہ تو ایسے ہی ایک دوست کی فرمائش پر لکھ دیا تھا۔ ٹیپو پر لکھے گئے سے اگر ان کی انگریز دشمنی ثابت ہوتی ہے تو بھگت سنگھ ، اشفاق اللہ خان اور چندر شیکھر آزاد پر ان کی خاموشی سے انگریز محبت کی دلیل بھی نکالی جا سکتی ہے۔ 

 
جلیانوالہ باغ کا سانحہ پنجاب میں ہوا تو بنگال میں ٹیگور نے سر کا خطاب واپس کر دیا ۔ اقبال تو اسی پنجاب کے بیٹے تھے لیکن وہ اس وقت شہنشاہ برطانیہ کا قصیدہ لکھتے رہے۔ اپنے گھر میں  بیتی اس قیامت پر ایک لفظ ان کے قلم سے نہ ٹپکا اور پھر اسی خون آشام سامراج سے ملنے والا  سر کا خطاب ایک اعزاز کی طرح وہ قبر میں ساتھ لے کر گئے۔


ابھی دلی اور لاہور کے طالب علم جب جبر واستبداد کے خلاف بسمل صابری اور فیض کی نظموں کے پرچم بنا کر باہر نکلے تھے تو کسی کو اقبال کا کوئی شعر اس موضوع پر کیوں نہیں ملا۔ 47 سے پہلے کی تحریک آزادی میں اقبال کی کون سی نظم عوام گاتے پھرتے تھے ؟ اقبال کی شاعری نہ اس وقت عوامی تھی نہ اب ہے۔ نہ وہ اس وقت سامراج مخالفت میں گلیوں میں بلند ہوئی تھی نہ اب ہوئی ہے۔ یہ دعوی کہ تحریک آزادی میں ان کی شاعری کا کوئی کردار تھا ، سراسر مبالغہ ہے۔  
رہا مفکر پاکستان ہونے کا الزام تو اس کی تردید اقبال نے ای تھامپسن کو لکھے گئے خط میں خود کر دی تھی۔ باقی جس کا دل کرے ، خطبہ الہ آباد خود پڑھ لے تاکہ تسلی ہو جائے۔  فرزند اقبال بھی ساری عمر لوگوں سے پوچھتے رہے کہ کوئی انہیں بھی بتا دے کہ پاکستان کا خواب اقبال نے کس شب کو دیکھا تھا۔ 

اقبال ایک بڑے شاعر تھے ، ہیں اور رہیں گے۔ بات یہیں ختم ہوتی ہے

حاشر ابن ارشاد