آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

گھنے درخت کی مانند تھا وجود اس کا

سوشل میڈیا پر شئیر کریں


پیارے والد  مولانا سلطان محمود أنور صاحب کا ذکر خیر
سعدیہ طارق

دل بہت اداس ہے کہ ابو جان ہمیں چھوڑ کر چلے گئے سر پر  سے ایک محبت بھرا شفیق سایہ اٹھ گیا ہے ۔

انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ سبھی ماں باپ اولاد کے لئے قیمتی ہوتے ہیں ،ہمارے ابو جان  بھی انمول  تھے ۔ میں یادوں کے اس سلسلے کو کہاں سے شروع کروں ؟ بچپن پر نظر دوڑاتی ہوں تو ہمیشہ ابو جان کو اپنے لاڈ پیاراور ناز اٹھاتے دیکھتی ہوں  ابو جان انتہائی شفیق باپ تھے ہمیشہ پیار سے بات کرتےتھے ۔میں   بچپن کی نادانی میں اکثر امی کے ساتھ کسی بات پر روٹھ جاتی تھی تو احتجاج کے طور پر کھانا چھوڑ دیتی تھی امی بھی راضی کرنے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتی تھیں کہتیں کہ نہ کھاؤجب بھوک لگے گی تو خود ہی کھاوگی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہنا کہ تمھارے ابو  جان ہی آکر راضی کرینگے میرے پاس اتنا وقت نہیں  کہ تمھارے  چونچلے کروں اور پھر جونہی ابو جان   آتےامی  ان کو بتاتیں کہ  آپ کی لاڈلی آج پھر بھوکی بیٹھی ہےتو ابو جان  آکر نہایت محبت سےمجھے بلاتے  اور پوچھتےکیوں ناراض ہو آو میرے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ۔ خفگی انسانوں سے ہوتی ہے روٹی سے تو  نہیں ہوتی پھر اپنے ہاتھ سے نوالہ بنا کر دیتے اور مجھے راضی کرتے پھر کہتے امی سے ناراض نہیں ہوتے وہ تمھاری بہتری کے لئے بات سمجھاتی ہیں۔ابو جان نے کبھی ہم بہنوں کو نہ کسی بات پر ڈا نٹا اور نہ ہی کبھی اونچی آواز میں  بات کی۔

 ابوجان کو اپنی اولاد کی دینی تربیت کی بہت فکر رہتی تھی بہت بچپن سے ہمیں نماز کی عادت ڈالی اور پھر بچپن سے دعا کرنے کی بھی  پختہ عادت ڈال دی ۔کہتے تھے ہمیشہ اپنے معاملہ کو خدا کی جھولی میں ڈال کر بے فکر ہو جاؤ  اوردعا میں لگ جاو اگر تمھارے حق میں بہتر ہوگا تو مل جائے گا نہیں تو اس سے بہتر ملے گا ۔ ایک دفعہ جب ہمارا تبادلہ کراچی ہوا    اسوقت میں نے ربوہ میں آٹھویں  جماعت کا بورڈ کا امتحان دیا ہواتھا کراچی میں  سکولوں میں سالانہ امتحان ہونے والے تھے ۔ میرا نویں جماعت میں داخلہ ہوا ، امتحان بہت قریب تھے ابو جان نے میرا داخلہ بھجوا دیا ،نویں کا امتحان بورڈ کا ہوتا تھا میں نے کہا ابو جان میری تیاری نہیں مجھے کچھ بھی نہیں آتا تو  ابو جان نے کہا امتحان میں ضرور بیٹھو  اگرکچھ نہ بھی آتا ہوا تو تمہیں کم از کم  اندازہ ہو جائے گاکہ پیپرز کیسے آتے ہیں ساتھ میں کہا کہ میں تمہا رے لئے دعا بھی کرونگا  اور  انشاءاللہ تم پاس  بھی ہو جاوگی حضور کی خدمت میں دعا کا خط بھی لکھوایا لیکن مجھے پھر بھی تسلی نہیں تھی کیونکہ میری تیاری نہیں تھی مگر ابو جان کو دعا  ؤں پر پورا بھروسہ تھا مجھے انہوں نے “رب کل شئ “پڑھتےرہنے کا بھی کہا۔ اللہ کا کرنا کیا  ہؤا کہ سندھ بورڈ کے پیپر پنجاب بورڈ کے آٹھویں کے نصاب سے ملتے جلتے  آئے اور میں اللہ کے فضل سے دعاؤں کے نتیجے میں پاس ہوگئ اور ساری زندگی کے لئے دعاؤں پر یقین کامل بھی ہو گیا ۔


یادوں کا سلسلہ تو لا متناہی ہے صرف وہ باتیں لکھونگی جس سے دوسرے بھی کچھ استفادہ کر سکیں ۔ابو جان نے ہماری تربیت ایسے انداز سے کی کہ ہمیں مربی کی اولاد ہونے پر ہمیشہ فخر محسوس ہوا ،ابو جان کہتے تھے کہ تمھارے باپ نے خدمتِ دین کی راہ اپنائی ہے اس میں وہ کامیاب ہے دنیا کمانا میرا پیشہ نہیں اس لئے کبھی ذہن میں یہ نہ آئے کہ ہم کسی سے کم ہیں۔ میری ایک دوست جو کہ مربی صاحب کی بیگم ہیں ابو جان کی وفات پر آئیں تو بتانے لگیں کہ جب میں اپنے میاں کے پاس بیرون ملک جارہی تھی تو آپ کے ابو جان نے نصیحت کی کہ آپ بھی وقف ہیں اور آپ نےاپنے میاں کے شانہ بشانہ تبلیغ کا کام کرنا ہے اور دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ کبھی بھی اپنے بچوں میں کسی قسم کا احساس کمتری نہ پیدا ہونے دینا۔


ابوجان تربیتی امور میں بہت گہری نظر رکھتے تھے اور ان کا تربیت کا انداز بھی  ایسا تھا کہ دوسرےکو محسوس کروائے بغیر بات سمجھا دیتے تھے۔ ابوجان کو مغرب کے بعد گھر سے باہر رہنا بلکل پسند نہیں تھا اگر کبھی میری سہیلیاں ہمارے گھر آتیں  تو ان کو یہ فکر ہوتی تھی کہ  بچیاں  مغرب سے پہلے اپنے گھر واپس چلی جائیں انہیں یہ بھی پسند نہیں تھا کہ کوئی بچی اکیلی گھر سے باہر نکلےایک دفعہ میری ایک سہیلی آئی ہوئی تھیں ان کو واپس گھر جاتے دیر ہو گئ وہ مغرب کے وقت باہر نکل رہی تھی تو ابو جان اسوقت مغرب کی نماز کے لئے جا رہے  تھےابو جان نے میری سہیلی سے پوچھا کہ آپ کس کے ساتھ واپس جا رہی ہیں تو اس نے کہا انکل اکیلی ہی جا رہی ہوں تو ابو جان نے اسے کہا کہ آپ ابھی بیٹھیں میں مغرب کی نماز پڑھ کر واپس آتا ہوں تو پھر آپکو خود آپکے گھر تک چھوڑ کر آؤں گا 
ابو جان بہت مہمان نواز تھے جب بچوں کے دوست آتے تھےتو ابوجان کہتے تھے کہ ان کی اچھی  طرح سےخاطر  مدارت کرو  ۔مہمان نوازی میں ہماری امی جان سونے پر سہاگہ ہیں ۔ہمیشہ ایسے  خاطر تواضع کرتی تھیں جیسے کوئی خاص مہمان آیا ہو۔


ابو جان کے دفتر میں بہت سی خواتین اپنے مسائل لے کر آتی تھیں بعض دفعہ ابو جان  محسوس کرتےتھے کہ خواتین دفتر میں کھل کے بات کرنے میں جھجک  رہی ہیں تو  ان کو گھر بلوا کر ان کی بات سنتے تھے اس وقت ہماری امی کو ساتھ بٹھا لیتے تھےاطیمنان سے بات سنتے اور پھر ان کو بات کی مناسبت سے تسلی دیتے تھے خود اٹھ کر چلے جاتے تھے امی کو کہتے کہ اب  ان کو چائے پانی پلائے بغیر نہ بھیجنا اور مہمان نوازی کا یہ انداز ہر ایک کے ساتھ یکساں ہوتا تھا ۔ایکدفعہ کسی گاؤں سے با لکل سادہ سی  دیہاتی خواتین  آئیں ابو جان نے امی سے کہا کہ دور سے آئی ہیں  ان کو کھانا وغیرہ کھلا کر جانے دینا ۔ امی نے حسب توفیق ان کی خاطر مدارات کی۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد وہ  خواتین دوبارہ ربوہ آئیں تو اپنے ساتھ  کچھ  گاؤں کی سوغات بھی تحفہ کے طور پر لائیں تو امی نے کہا کہ آپ نے کیوں تکلیف کی تو اس پر ان خواتین نے کہا کہ ہم آپ کی مہمان نوازی اور عزت افزائی سے بہت متاثر ہوئے تھے ہم اپنی خوشی سے آپکے لئے تحفہ لائے ہیں۔


جب ابو جان شعبہ ء اصلاح و ارشاد میں تھے  تو اس وقت بہت مصروف رہتے تھے صبح دفتر جاتے دوپہر کو گھر کا چکر لگا کر واپس دفتر جاتے تو پھر زیادہ تر رات دس بجے تک دفتر بیٹھ کر کام کرتے رہتے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے ایک دوپہر سخت گرمی تھی  ابو جان دفتر سے آئے ہی تھے اور کھانا کھا رہے تھے میں ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اتنے میں باہر کی گھنٹی بجی میں نے ابو جان  سے کہا کہ میں دیکھتی ہوں جو بھی ہے میں اسے شام کو آنے کا کہتی ہوں لوگ عجیب ہوتے ہیں دوپہر کو بھی آرام نہیں کرنے دیتے  یہ کہہ کر میں جلدی سے گیٹ کی طرف بھا گی ابھی پوچھ ر ہی تھی کہ کون ہے تو ابوجان بھی میرے پیچھے ہی آگئے اور باہر نکل کر اس آدمی سے ملے ان کی بات سنی پھر اندر آکر مجھے کہنے لگے کہ وہ کسی ضروری کام کے تحت اتنی گرمی میں تکلیف اٹھا کر مجھے ملنے آیاہے تمہیں اس کی تکلیف کا احساس کرنا چاہئے مجھے تو صرف گیٹ تک جانا پڑا ہے۔

بہت سی باتیں یاد آرہی ہیں ۔جب میری شادی ہوئی تو ابوجان نے مجھے بڑے پیار سے سمجھایا کے بیٹی شادی کے ہنگاموں میں رات کو سونے میں دیر ہو جاتی ہے  تو فجر کی نماز  بعض دفعہ لیٹ ہو جاتی ہے اس لئے فجر کی نماز کی خاص طور پر حفاظت کرنا  دوسری بات ابو جان  نے یہ کہی جب بھی ہمیں ملنے آنا ہے اپنے میاں کے ساتھ آنا اس کے پیچھے مقصد یہی ہوگا کہ  میاں کے پاس جب ٹائم ہوگا تو وہ لے کر آئے گا نہیں تو اپنے گھر میں دل لگائے گی   اور یہ  بات بچیوں کے گھر بسانے کے لئے بہت اہم ہے جو ابو جان نے شروع میں ہی سمجھا دی کہ بغیر کسی وجہ کے میکے آکر بیٹھنا مناسب نہیں۔
ابو جان نہایت نفیس مزاج اور صفائی پسند تھے صفائی اور گھر کے رکھ رکھاؤ کو بہت جلدی پرکھ لیتے تھے ایک دفعہ ابو جان کسی کے گھر سے واپس آئے تو میں نے پوچھا ابو جان ان کا گھر کیسا تھا تو ابو جان نے کہا اچھا تھا میں نے دو تین دفعہ پوچھا کہ صاف تھا تو ابو جان کہتے ہیں بظاہر تو ٹھیک تھالیکن تم  جوپو چھنا چاہ رہی ہو صفائی کا وہ معیار نہیں تھا سوئچ بورڈ وغیرہ گندے تھے۔ یہ ابوجان  کی نگاہ کی باریک بینی تھی  کہ انہوں نے اتنی جلدی اندازہ لگا لیا۔


ابو جان کے ساتھ جب کبھی سفر پر جاتے تو ابوجان  کہتےکہ اپنے اردگرد کی چیزوں کا مشاہدہ بھی کرتے جاؤ تا کہ سفر سے پورا فائدہ اٹھا سکو۔ابو جان کو وقت ضائع کرنے پر بہت دکھ ہوتا تھا ان کا دل چاہتا تھاکہ ہم اپنے وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کریں میں نے جب کبھی کوئی ڈائجسٹ افسانے پڑھنے تو ابو جان  پوچھتے اس میں سے کیا حاصل کیا تو مجھے کوئی قابل ذکر بات سمجھ نہ آتی تو ابوجان کہتے دیکھو وقت ضائع ہوا ہے ایسی چیز پڑھو جس سے کچھ حاصل بھی ہواور وقت بھی ضائع نہ ہو
اللہ کے فضل سے ہمارا گھر ہماری جنت تھا بہت پرسکون اور طمانیت بخش ماحول رہا ۔ابو جان   ان مردوں میں سے نہیں تھے جو بیویوں کو تعریفی کلمات کہنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ وہ امی کی خوبیوں کا برملا اظہار کیا کرتے تھے۔ بلکہ   کہا کرتےتھے  کہ گھر  کی ذمہ داریوں کا سارا کریڈٹ تم لوگوں کی ماں کو جاتا ہےاس نے ہمیشہ میری صحت کا خیال بھی رکھا اور مجھے گھر کی ہر طرح کی فکروں سے  بھی آزاد رکھا کبھی دوسری عورتوں کی طرح مسائل کے رونے نہیں روئے ۔ اسکا اندازہ اس بات سے  بھی ہو سکتا ہے کہ میرا ایک بھائی کی پیدائش حضرت خلیفة المسیح الرابع  رحمہ اللہ کی ربوہ سے  ہجرت والے دن ہوئی امی ہسپتال تھیں اور  أبوجان اس دن جماعتی کا موں میں مصروف تھے گھر کی ہوش نہیں تھی  امی کہتی ہیں میرا دل بہت خراب تھا کہ تمھارے ابو جان کو میری کوئی فکر نہیں۔ کہتی ہیں  کچھ اندازہ تھا کہ کوئی جماعتی مسئلہ ہے لیکن اتنا بھی کیا اہم ہے کہ میں ہسپتال ہوں اور یہ پوچھنے بھی نہیں آئے ۔ان دنوں کوئی ایک دو روز پہلے 1984 والا آرڈینینس جاری ہوا تھا اورحضور کی روانگی کا کسی کو پتا نہیں تھا  ابو جان اسوجہ سے باقی جماعتی کارکنوں کے ساتھ مصروف تھے  ۔ ابو جان جب  کچھ وقت نکال کر ہسپتال گئے تو بھائی کی پیدائش ہو چکی تھی حضور کو ابوجان نے امی کے بارے میں بتا دیاتھا حضور نے پیشگی بیٹے کی مبارکباد بھی دے دی اور  بچے کے لئے  شہد کاتبرک بھی دیا تھا ۔امی کہتی ہیں جب تمھارے ابوجان آئے تو میں نے  حضور کی خیریت پوچھی  تو تمھارے ابو جان خا موش رہے کوئی جواب نہیں دیا لیکن جب حضور کے لندن پہنچنے کی اطلاع مل گئ تو پھر امی کو وجہ بتائی کہ اس لئے ہسپتال ساتھ نہیں آسکا۔ ابو جان نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کوبہت اچھے طریقہ سے نبھایا اور کبھی جماعتی کام کے وقت کوئی ذاتی مجبوری آڑے نہیں آنےدی۔ اور امی نے بھی ہمیشہ ان کا ساتھ دیا۔ الحمد للہ


ہمارے ابو جان   دوسروں کی خوشی میں خوش ہوتے تھے کسی سے حسد نہیں کرتے تھے میرے چھوٹے بھائی کو ایک دفعہ بتایا کہ جب میں کسی جلسہ وغیرہ میں بیٹھا ہوتا ہوں تو جو مقرر تقریر کر رہا ہو تا ہے میں اس کے لئے مسلسل دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ اس کی مدد کرے اور اس کی بات دوسروں پر اثر کرے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی بات ہے کسی ہم پلہ کے کا میاب ہونے کی دعا کرنا  ورنہ عام طور پر تو لوگ کسی کی تعریف کرتے ہوئے بھی بغض سے کام لیتے ہیں۔

ابو جان اللہ کے فضل سے بہت اچھے مقرر تھےجب اسٹیج پر آتے تھے تو حاضرین کو خاموش کروانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ لوگ خود ہی خاموش ہو جاتے تھے ۔جب خلافت کی ہجرت  پاکستان سے ہوئی اس وقت سب احمدی اداس تھے  ربوہ والوں کا اسوقت  خاص طور پر بہت برا حال تھا اس زمانے میں اللہ نے ابو جان کو یہ موقع دیا بلکہ اعزاز دیا کہ ان کو اس کٹھن دور میں  ناظر اصلاح و ارشاد کی حیثیت سے اپنے خطبات سے جماعت کی ڈھارس  بندھانے کی توفیق ملی۔ ( اس وقت کی حکو مت  کی مخالفت کی وجہ سے حا لات بہت خراب تھے) اور یہ  صرف خدا کی مدد کے ساتھ ممکن  ہوا  ،ورنہ ابو جان کی ذات تو ایک کمزور شخص کی تھی اور اس میں ان کا کوئی کمال نہیں تھا۔ اس بات کا ابوجان  بہت زیادہ اظہار بھی کرتے تھے کہ میری ذات کچھ نہیں اور یہ خدا تعالی نے خلافت کی بر کات کے طفیل انعام دیا ہے ورنہ جماعت کے باہر کتنے مقرر ہیں کون ان کو سنتا ہے ؟ یہ خلافت کا فیضان ہے ایک عام شخص کی بات میں بھی اثر پیدا ہو جاتا ہے اور ہمیں یہ برکتیں خلافت کی وجہ سے ملی ہیں ۔ابو جان کوخلافت سے اور نظام جماعت سے انتہا درجے کی محبت تھی نطام کے خلاف نہ کبھی کوئی بات انہوں نے کی اور نہ ہی کبھی کوئی بات سنی بلکہ ایک دفعہ کسی شخص نےحضرت خلیفة المسیح الرابع  رحمہ اللہ کی بیماری کے دنوں میں پوچھا  کہ اگلا خلیفہ کون ہوگا تو ابو جان کو اس کی بات بہت بری لگی  ابو جان نے اسے سخت جواب دیا کہا  یہ بات اسی طرح ہے کہ جیسے کوئی اپنے باپ کی زندگی میں یہ سوچے کے اس کے باپ کے  مرنےبعد اس کی ماں کس سے نکاح کرے گی (یعنی کے خلیفہ کے ہوتے ایسی بات سوچنا  اس درجہ کی بے غیرتی کے برابر ہے) اسی طرح ہم میں سےکسی کو یہ جرات نہ تھی کہ کوئی ایسی بات جو نظام  جماعت یا خلافت کے خلاف  ہوباہر سے سن کر بھی گھر میں دہرا سکیں جب خلافت خامسہ کا انتخاب ہوا تو ہم سب کے لئے اپنے ہوش میں ایک نیا تجربہ تھاتو ابو جان نے اسوقت ہماری تربیت ضروری سمجھی ہم سب لندن میں ہی موجود تھے خلافت کے انتخاب کے بعد ابو جان نے گھر آکرہم سب گھر والوں کو حضور کے لئے دعا کی تحریک کی اور پھر کہا کہ بعض دفعہ جب نئی خلافت کا دور ہوتا ہے تو بعض لوگ مختلف تبصرے کرتے ہیں آپ نے  کہاکسی ایسی بات پر دھیان نہیں دینا یہ خدائی فیصلہ ہوتا ہے اور خلیفہ کا انتخاب بھی خدا تعا لی کرتا ہے ۔بس آپ نے مکمل اطاعت سے اپنے دل حضور کی طرف مائل رکھنے ہیں اور ہر وقت حضور کی آواز پر لبیک کہنا ہے۔  یاد رکھوساری برکتیں خلافت کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اس لئے ہمیشہ  خلافت  سےجڑے رہنا خلیفہ کے سارے فیصلے معروف ہوتے ہیں  تمھارا کام ان  فیصلوں کے بارے میں سو چنا نہیں بلکہ صرف ان فیصلوں کوماننا اور اطاعت کا اعلی معیار دکھانا ہے۔

ہمارے ابو جان ہر وقت  ذکر الہی کرتے  رہتےتھے جس میں یہ دو دعائیں بہت دیر تک دھراتے رہتے تھے  ۔ پہلی دعا حضرت رسول اللہ ﷺ کی ہے
“اللهم لا تکلنی إلی نفسی طرفة عین أبدا “یعنی اے میرے رب مجھے ایک لمحے کے لئے اپنے نفس کےحوالے نہ کرنا اور تیری ذات کے سوا جو کوئی ہو سکتا ہے مجھے اس سے بے نیاز رکھنا”
اس طرح دوسری دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے
“الھم اجعلنی جمیعا لک و کن لی جمیعا و تعال الی من کل باب”
ا”اے اللہ مجھے کلیتہ اپنا بنا لے اور تو کامل میرا ہی بن جا اور ہر پہلو سے اور ہر راہ سےتو میری جانب اور میرے ہاں آ”
یہ سوچ کر بہت تکلیف ہوتی ہے کہ اب ابو جان  ہم سے دور بہت دور چلے گئے ہیں  ۔ اب صرف ہماری دعائیں  ہی انہیں پہنچیں گی ۔ میں ہر روز  اپنے   ابو جان کے مزار پر جا تی ہوں اور گواہی دیتی ہوں کہ اے خدا مجھے میرے باپ نے بالکل ایسےہی پرورش کیا جیسے تیرے رسول ؐنے بیٹیوں کو پرورش کرنے کا فر ما یا تھابس اب تو بھی ان کو اپنے پیارے رسول ؐکا قرب دے اوران کے درجات بلند فرما ۔آمین
اللہ سے دعا ہے کہ و ہ ہم سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلائے اور ہمارے والد کی نسلیں بھی اس فیضان سے حصہ پائیں جو وہ جاری کر گئے ہیں . آمین