آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

اک شجر سایہ دار
ہمارے اباجی

چوہدری بشیر احمد صاحب مرحوم
(ناصرہ احمد ،بریمپٹن، کینیڈا)

ماں باپ دُنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر ایک عظیم پیاری نعمت
ہوتے ہیں۔ اُن کے جانے کے بعد دُنیا کی ہر نعمت بے لذت ہو
جاتی ہے، زندگی بدل جاتی ہے وہ بے فکرےدن خواب و خیال

ہو جاتےجب ہر دُکھ اور غم اُن کی جھولی میں ڈال کر

دُعاؤں کی چھایا تلے پُر سکون ہو جایا کرتے تھے، اُن کی یاد
کی کسک ہر موقع اور ہر لمحہ پر چُبھتی ہویٔ محسوس ہوتی
ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم انکی برکت اورشبانہ روز دُعاؤ
ں سےمحروم ہو گئے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہےکہ ان جیسا
دُعائیں کرنے والا دُنیا میں اور کوئی وجود نہیں ہوتا۔ان کی یادیں
اور وہ دُعائیں جو کر گئے ہوتے ہیں زندگی کا قیمتی سرمایہ
ہوتی ہیں جو زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہیں
۔پیارے اباجی کی بےشمار انمول یادوں میں سےچندجھلکیاں
سپُرد قلم کر رہی ہوں ۔
اباجی ۱۹۲۲ ؁ میں اسماعیلہ شریف ضلع گُجرات میں
محترم میاں مُحمد ابراہیم صاحب اور مُحترمہ غلام فاطمہ بی بی

صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ دادا جان میاں محمد ابراہیم صاحب
اور دادی جان غلام فاطمہ صاحبہ دونوں انتہایٔ پاکباز ،اسلام و
احمدیت کے شیدائی تھے۔ داداجان نے اوائل جوانی میں خود
قادیان جاکر حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے ہاتھ پر بیعت کی
اور آپ اپنے گاؤں اور خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ احمدیت
میں داخل ہونے کے بعد دادا جان کا اوڑھنا بچھونا احمدیت ہو
گیا۔ اپنے گاؤں اور ساتھ کے متصل دیہات میں ہر رنگ میں
اپنے عملی نمونے سے تبلیغ کا فریضہ سر انجام دینے
لگے،گاؤں میں چونکہ انتہایٔ پُر اثر شخصیت کے مالک تھے
اور سب عوام و خواص صلاح مشوروں اور مسائل کے حل کے
لیئے آپ کے پاس آتے اور آپکے فیصلوں کو دل وجان سے
مانتےتھے اسلئے آپکی تبلیغ کی مساعی نے رنگ لانا شروع کر
دیا اور آہستہ آہستہ سارا گاؤں اللہ کے فضل سے احمدیت کے
نُور سے روشن ہو گیا۔الحمدللہ
دادی جان مُحترمہ غُلام فاطمہ بی بی صاحبہ حضرت مسیح
موعود علیہ السلام کے۳۱۳ صحابیوں میں سے ایک جلیل القدر
صحابی حضرت حا فظ مولوی فضل الدین صاحب آف کھاریاں
کی بیٹی تھیں ۔دادی جان گاؤں میں ایک ماہردیسی طبیبہ کی
حیثیت سےاور علم و فضل کی وجہ سے بہت مقام رکھتی تھیں
اور گاؤں کی تمام چھوٹی بڑی لڑکیوں اور خواتین کو قُرآن پاک
کی تعلیم دیتی تھیں اورگاؤں کے ہر فرد کی خدمت کے لیے
علاج معالجے، دوادارو کا سامان ہر وقت مہیا رکھتی تھیں۔انتہا
ئ دانا،صائب الراۓ اور بے نفس وجود تھیں۔الحمدُللہ

اباجی نے ایسے پاکیزہ والدین کے ہاں آنکھ کھولی کہ اُنہیں
پرورش میں ہی اللہ ور اسکی مخلوق کی محبت گُھٹی میں
ملی،ابتدایٔ تعلیم گاؤں کے اسکول سے ہی حاصل کی اور باقی
تعلیم کھاریاں ضلع گُجرات سےاور پھر قادیان سے حاصل کی۔
تعلیم ختم کرنے کے بعد نیوی میں بطور پیٹی افسر کے ملازمت
مل گئ۔ دوران ملازمت ترقی کے امتحانات پاس کرتے رہےاور
مرچنٹ نیوی میں ریڈیو آفیسرکے عہدے پرتعینات ہو گئے۔
اباجی بتاتےتھےکہ مرچنٹ نیوی کی مُلازمت کے ابتدایٗ دور
تھا،ایک بحری سفر کے دوران ارض حجاز کی سر زمین کے
پانیوں میں سے گُزرتے ہوئےمیں نے رب کریم سے دُعا کی کہ
ایسی شپنگ کمپنی میں مُلازمت کاموقع عطأ فرمائے کہ جسکی
وجہ سے بار بار ارض مُقدس ، مکہ و مدینہ کی زیارت کر
سکوں۔اللہ تعا لیٰ کا ایسا کرم ہوا کہ کُچھ ہی عرصہ کے بعد ایک
ایسی ہی شپنگ کارپوریشن بطور ریڈیو آفیسر کے ملازمت مل
گئی ۔ اور اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے اپنی ملازمت کے
دوران بےشمارحجاج اکرام کی بے انتہا مدد کی جماعت کے
کئی اکابرین کے ساتھ دوران سفر ہم رکابی کے مواقع ملے۔
خُدائے باری تعالیٰ نے اُن کی دُعا کو سُنتے ہوئے سات بار حج
ادا کرنے کے مواقع عطأ کئے، انہوں نے کئی حج جماعت اور
اپنے خاندان کے فوت شُدہ بزُرگان کی طرف سے بھی ادا کیئے۔
ایک دفعہ خانۂ کعبہ کے اندر جا کر نوافل ادا کرنے اور خاص
دُعا کا بھی موقع ملا۔

اللہ تعالی نے پیارے اباجی کی شخصیت میں حسن سیرت،
اورحسن صورت کے ساتھ دلکش مومنانہ اطوارکے رنگوں کا
ایساامتزاج بھر دیا تھا کہ باطن کا نُور اُنکے چہرے سے
جھلکتا تھا ،اپنے تو اپنےپرائے بھی ایک ہی مُلاقات میں گرویدہ
ہو جاتے۔ مُحبت کرنے والے ایسے وجود تھے کہ انہوں نے تمام
رحمی رشتوں کو احسن رنگ میں نبھانے کا حق ادا کر دیا۔ حقوق
اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے اپنے سب رشتوں کا انتہائی
پاس رکھنے والےبہترین باپ ، بھائی ، اور بیٹے تھے۔ انتہائ
دینی غیرت رکھنے والے سچے اور کھرےایماندار انسان تھے۔
تمام عُمر ملازمت میں گُزاری اللہ تعالیٰ نے انہیں کبھی کسی کا
محتاج نہ کیا،ھمیشہ سب کی مدد کی ۔اُن کی زندگی میں اپنے
پیاروں سےجُدایئوں کے کئی ادوارآئےاور بیماریوں کاسخت
سامنا بھی کرنا پڑا مگر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔دُعا اور
اللہ تعالی کی ہستی پر یقین کامل نے اُنہیں ہر عسر اور یُسر میں
ایک ایسا متوکل انسان بنا دیا تھا کہ طبیعت میں کبھی بھی کوئ
گبھراہٹ کا عُنصر نہیں پایا جاتا تھا۔ زندگی کےہر دُکھ اور سُکھ
میں ہمیشہ شُکر کا جزبہ غالب رہتا ۔ ہر گھڑی دُعا ، اللہ کے
حضور مُناجاتیں کرتے اور نوافل ادا کرتے۔ کسی بھی کام یا جاب
کے سلسلےمیں گھر سے روانہ ہونے سے پہلےلازما دو نفل ادا
کرتے۔ ہر حالت میں کبھی بھی صبر کا پہلو نہ چھوڑتے خُدا کی
ذات پر یقین کامل اُنہیں مایوسی کے قریب بھی نہ جانے دیتا،
اکثرکہتےکہ، بشیر احمد نا اُمید ہونے والوں میں سے نہیں ہے۔
توکل کا ایک ایسا مقام انہیں حاصل تھا کہ زندگی کے ہر پہلو کو

ہمیشہ مُثبت پہلو سے دیکھتے اوردوسروں کے لیے حوصلے کا
باعث بنتے، ان کا وجود ہم سب کے لیے بے انتہا تسلی اور
سکون کا باعث تھا۔
خاکسارہ اپنی شادی کے ابتدائی سالوں میں میاں کے ساتھ وقف
کے سلسلے میں مغربی افریقہ کے مُلک سیرالیون میں کئی سال
رہی ،ایک دن اُداسی اور تنہایٔ کی وجہ سے طبیعت میں سخت
گھبراہٹ کا عالم ہو گیا کہ نجانے کب وہ وقت آئے گا کہ اپنے
پیاروں کو دیکھ سکیں گے۔ ایک دن خواب میں اباجی کا پیارا
چہرہ دیکھا جو فرما رہے ہیں ، ناصرہ! فتوکل علی اللہ ،میرےدل
پراسکے بعد ایک سکینت طاری ہو گئی۔پھراللہ تعالی نے ایسے
اسباب مہیا کر دئیے کہ افریقہ میں لمبےقیام کے بعد مُجھے اپنی
فیملی کے ساتھ اباجی کی باقی زندگی کے دوران ایک لمبا
عرصہ اُنکی وفات تک ان کے قریب ہی رہنے کا موقع ملا۔
ایسےمہربان دُعا گو وجودتھے کہ اپنی دُعا کو کُل عالم تک
مُحیط کر تے اکثرہمیں تلقین فرماتےکہ سب سے پہلا حقدار دُعا
کا اسلام ہے اسلام کی فتح یابی اور خلیفتہ المسیح کے لیے
دُعاپہلے مُقدم کر لوپھر کوئی اور دُعا مانگو۔ ایک دفعہ میں نے
کسی در پیش مسئلہ کے لیے دعا کے لیے عرض کیا تو سر پر
ہاتھ پھیر کرفرمانے لگے کہ دُعا تو میں ضرور کروں
گامگراسوقت مُسلمانوں کی حالت دنیا میں دگر گوں ہے، بوسنیا
اورچیچنیا کے مُسلمانوں کے لیےخاص دُعاؤں کی ضرورت
ہےاُن کے کے لیےپہلے دُعا مانگوپھر اپنے لئےبھی مانگواللہ
تعالیٰ یقینا فضل کرے گا۔ ایک دفعہ فرمانے لگے کہ میں جماعت

احمدیہ کےآئندہ آنے والے پچاس خُلفأ احمدیت کے لئے بلا ناغہ
دعائیں کرتا ہوں ۔
اباجی کا دل ہر وقت نماز میں رہتا ، آپکی تہجد میں گریہ زاری
اور نوافل کا ایک اور ہی عالم ہوتا۔ دُعا کے لیئے عرض کرنے
والے عزیزو اقارب اور دوست احباب کی لمبی لسٹیں اپنی ڈائری
میں بنائی ہوتی تھیں اور ان سب کے لیے التزاما خاص دُعا ئیں
کرتے۔ آنحضرتﷺ کی شان میں حضرت مسیح موؑعود کے
عربی قصائید والہانہ انداز میں آنسؤوں کے ساتھ پڑھتے،اور دن
رات درود شریف کا ان گنت بار ورد کرتے۔ وفات کے بعداباجی
کے ہاتھ سے لکھے ہوئے دُعا ئیہ نوٹس کمرے کی
الماریوں،دراز، شیلفوں اور اسٹڈی میز پہ جگہ جگہ رکھے ہوئے
ملے،گویا کہ اوڑھنا بچھونا ، دن کا ہر لمحہ یاد الہی میں
گُزرتا۔قُرآن پاک انتہائی خوش الحانی سے تلاوت کرتے اور
معرفت و حکمت کے تفسیری نوٹس بناتے جاتے۔ حضرت خلیفتہ
المسیح الرابع رحمتہ اللہ کے درس قرآن انتہائ انہماک اور پابندی
سے سُنتےاور ساتھ ساتھ نوٹس بھی بناتے جاتے۔
خاکسارہ جب بی اے میں تھی تو قُرآن پاک پہلے اُردو ترجمے
کے ساتھ پھر انگلش ترجمے کے ساتھ لفظ بہ لفظ روزانہ
پڑھاتےاور کئی نئے نکات روز سمجھاتے۔یہ بات میں چشم دید
گواہ کے طور پر کہہ سکتی ہوں کہ اباجی ایک انتہائ پاک باز،
پاک فطرت اور اپنے رب سے سچا پیار کرنے والے، اُس کی
رضا میں راضی رہنے والے صابر اور شاکر وجودتھے۔بچپن

سے لے کر اُنکی وفات تک ہم نے انہیں ہمیشہ اسلام اور احمدیت
کے پکے اصولوں پر کار بند پایا۔
آنحضرتﷺ ،حضرت مسیح موعودؑ اور خلافت احمدیہ کے
سچے عاشق اور جانثار تھےاس سلسلے میں اپنی اولاد کواسلام
و احمدیت پرہمیشہ کاربند رہنے کی تلقین کیا کرتے
تھے۔آنحضرت ﷺاسلام اور بانئ جماعت احمدیہ سلسلہ کی آن
کے لیے کسی قسم کی بےغیرتی یا سُستی وغیرہ برداشت نہ
کرتے تھے۔موصی تھے اور سب چندہ جات اور تحریکات میں
صف اول میں شامل ہوتے۔
جماعتی ذمہ داریوں کو اولین ترجیہی دیتے ہوئےانتہائی مُحبت
اور فرض شناسی سے ادا کرتے۔ کراچی میں میں لمبا عرصہ
جماعتی فرائض ادا کیے پھر کینیڈا آنے کے بعد لمبا عرصہ
نیشنل مجلس عاملہ میں بطور سیکرٹری وصایا اور سیکرٹری
رشتہ ناطہ کے کام کیا ۔ جماعتی عہدہ داران اور مربیان اکرام
کے ساتھ ایک خاص عزت و احترام کا تعلق رکھتے اورنظام
سلسلہ کی اطاعت کواپنافرض سمجھتے۔ہمارے بڑے بھا ئ جان
چوہدری مُنیر احمد صاحب مربی سلسلہ عالیہ (حال ایم ٹی
اےٹیلی پورٹ امریکہ )کے وقف زندگی ہونے کوایک نہایت
سعادت اور فخر کا باعث سمجھتے، کئی دفعہ کہتے کہ مُنیر
احمد کے وقف کے بعد ہمارے خاندان پر اللہ کی بے شمار برکات
کا دروازہ کُھل گیا ہے ، اور یہ سب تُمہاری امی جی کی قربانی
اور استقلال کی وجہ سے ہوا ہے۔

ایک زمانے میں جب میرے بچے ابھی بہت چھوٹے تھے کہ
اپنے حلقے کی صدر لجنہ کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے عطأ کر
دی، مُجھے اس بات کی گھبراہٹ تھی کہ گھریلو ذمہ داریوں کے
ساتھ اپنے عہدے کا صیح حق ادا کر پاؤں گی یا نہیں اور
ڈرایئونگ بھی نئی نئی سیکھی تھی عاملہ کی میٹنگز کے لیے
اکیلےلمبی ڈرایئو کر کے مشن ہاؤس جانے کا بھی تجربہ نہیں
تھا۔ اباجی کہنے لگے گھبرانے کی تو کوئی بات ہی نہیں ، جس
دن میٹنگ ہوا کرے گی میں تُمہارے ساتھ جایا کروں گا چاہے
اُس دن میری میٹنگ ہو یا نہ ہو، مُجھے بھی مشن ہاؤس میں اور
بھی کئی کام ہوتے ہیں وہ کر لیا کروں گا۔ میں اُن کو گھر سے
پک کرنے جاتی تو اباجی بلکل تیار میرے انتظار میں باہر
دروازے پر کُرسی پر بیٹھے ہوتے۔ میں ڈرائیو کرتی اور اباجی
میرے ساتھ آتے جاتےمیری باتیں سُننے کے ساتھ کئی ماضی
کے دلچسپ واقعات اور خدمت دین کے سلسلے کے تبلیغی
واقعات سُناتے جاتےاور رستے کا پتہ ہی نہ چلتا۔
اباجی ایک بہترین داعی اللہ تھے، اپنے اخلاق اورنرم رؤئی سے
دوستانہ ماحول میں تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے
چونکہ ملازمت کے سلسلے میں بیرون ممالک جانے کا اتفاق
ہوتا تھا تو جس بندرگاہ پر جہاز رُکتا وہاں کے مقامی لوگوں سے
خوب واقفیت حاصل کر لیتے اور دوستانہ تعلقات بڑھانے کے
ساتھ جماعتی لٹریچر تعارف کے طور پر پیش کرتے۔ کینیڈا آنے
کے بعد بھی آخر تک یہی طریق رہا کہ ہمیشہ اپنے بیگ میں
جماعتی پمفلٹ رکھتےاور کوشش کرتے کہ ہر جگہ جہاں بھی

جایئں نئے کونٹیکٹ بنائیں اور دعوت اللہ کریں ۔ اپنی وفات سے
چند دن قبل میرے ہاں آۓ تو سلسلے کی چند کتابیں اور پمفلٹ
ایک فیملی کو دینے کے لیے مُجھے ساتھ لے کر گئے ۔
اباجی کی زندگی کا بیشتر حصہ سمندروں کے پانیوں میں
گُزرا۔ہمارے بچپن میں اباجی سال میں دو یا تین دفعہ چُھٹی پر
گھر آتےہم نے پہلےہی طرح طرح کے فرمائشی خطوط لکھے
ہوتےاباجی دُنیا کےہر مُلک میں جہاں بھی جاتے ہمارے لیے
وہاں کی خاص سوغاتیں لے کر آتے اور تمام عزیز و اقربأ کو
بھی اس سلسلے فراخ دلی سے یاد رکھتےاور تحائف سے
نوازتے۔ چھُٹی پہ اباجی کی گھر آمد ہمارے لیے دوہری خوشی
کا باعث ہوتی کہ ہم اباجی کے ساتھ اپنے گاؤں اسماعیلہ شریف
جاتے اور گھومتے پھرتے، پھر سب عزیز و اقارب کا ہمارے
گھر ملنے کے لیے آنا ایک رونق اور خوشی کا سماں باندھ
دیتا۔مہمان نوازی کے دور چلتے اور امی جی ان ذمہ داریوں کو
بہ حسن وخوبی ادا کرتیں۔دن پر لگا کر اُڑجاتے اور اباجی کے
واپس جانے کے دن آجاتےاور پھر سےہم اباجی کے انتظار میں
اُداس دن گُزارتےاورجلد چھُٹی پہ واپس آنےکی دعایئں
مانگتے۔وہ دن ہمارے لیے عید سے کم نہ ہوتے۔
ہم بہن بھایئوں کی عادت تھی کہ رات کو سونے سے پہلے
اباجی،امی جی کے کمرے میں اُن کے اردگرد بستر پربیٹھ جاتے
کوئی اباجی اور کوئی امی جی کی بازو، ٹانگیں یا پاؤں پکڑ کر
دبانے لگتا، اباجی نے کہنا امی کو دباؤ گھر کے کام کاج سے
تھک گئی ہوں گی اور امی جی نے کہنا اباجی کو دباؤ، اسی

طرح باتوں باتوں میں سب سےروزمرہ کی روٹین کی باتیں
پوچھتے،مزے مزے کے پاکیزہ لطائف سُناتے،قادیان کے پاکیزہ
ماحول اور پارٹیشن کے دور کے واقعات سُناتےکہ جب قادیان
کی حفاظت کے لیے حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ کی بابرکت
معیت میں کس طرح ڈیوٹیاں ادا کیں ۔قادیان میں تعلیم کے دوران
اپنے بابرکت اساتذہ ، حضرت مولوی شیر علی صاحب،حضرت
مولانا سید سرور علی شاہ صاحب کے ایمان افروزاور دیگر
بزرگان کے واقعات کا ذکر کرتے۔پھر آخر میں اجتماعی دعا
کرواتےاور کہتے فی امان اللہ جاؤ جا کر سو جاؤ۔سالہا سال تک
بڑے ہونے تک یہی روٹین رہی۔اباجی تربیت کے معاملے میں
بہت نرم روئی سے کام لیتے، بس
ہلکے انداز میں بات کان میں ڈال دیتے تھے اور ہم بھی اباجی
کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر مُدعا سمجھ جا یاکرتے تھے۔
کالج کے زمانے میں ایک دفعہ میرے ہاتھ میں افسانوی ڈائجسٹ
دیکھے تو خاموشی سے میرے میز پر کُچھ علمی کتابیں رکھ دیں
اور صرف اتنا کہا کہ وقت ملے تو انہیں بھی پڑھنا۔
طبعیت میں شکفتگی اور پاکیزہ مزاح تھااپنے بچپن کے پُر لُطف
واقعات ایسے شگُفتہ رنگ میں سُناتے کہ محفل کو زعفران زار
بنادیتے۔ مزاح کا انداز بہت شُستہ اور لطافت سے پُر ہوتا کوئ
نازیبا بات یالفظ کبھی مُنہ سے نہ نکالتے۔
اباجی انتہائی نفیس ذوق کے حامل تھے سادہ ، صاف مگر
خوبصورت لباس پہنتےچوائس بہت اعلیٰ تھی۔ باہر کے ممالک

سے امی جی اورہم سب کے لیے خوبصورت دوپٹے اور اور
نفیس میچنگ کے سوٹ لے کر آتے کہ رنگوں کے انتخاب کو
دیکھ کر حیرانی ہوتی ، گرمیوں اور سردیوں کے کپڑوں کی
خریداری کے لیئے امی جی کے ساتھ ہمیں شاپنگ پہ لے کر
جاتے اوررنگوں کےانتخاب میں اپنی بہت اعلیٰ راۓ دیتے کہ
ہماری خریداری زبردست ہو جاتی۔ وقت زیادہ لگانے پر ذرا بھی
گھبراہٹ کا اظہار نہ کرتے، بلکہ کہتے کہ اب اگر تھک گئے ہو
تو چل کر لیمن ، سوڈا بیٹھ کر پیتے ہیں پھر کسی باپردہ اچھی
جگہ پر بیٹھا کر کھلاتے پلاتے اور خوب انجواۓ کرواتے،۔
چُھٹی والے دن ہمیں اکثر کبھی ہل پارک ، کلفٹن وغیرہ سیر
کروانے لے کر جاتے۔
پاکیزہ صاف سادہ اور تازہ کھانا پسند کرتے۔ شام کی چاربجےکی
چائے کا اہتمام بہت پسند کرتے اعلٰی بیکری سے کُچھ نہ کُچھ
تازہ کیک ، بسکٹ وغیرہ ضرورمنگواتےاور چائے ٹی کوزی
میں اچھی دم ہوئی نفیس کپ میں پینا پسند کرتے ۔کھانے کی
تعریف میں حوصلہ افزائی بھی خوب کرتےکھانے کے بعد
الحمدُللہ کہنے کے بعد کہتے آج تو کمال ہو گیا، دعوت شیراز
ہوگئی۔میرے بی اے کے امتحان ہونے والے تھے کہ امی جان
کی طبیعت خراب ہو گئ۔ بڑی بہنیں اپنے گھروں میں تھیں ،
اورگھر کی دیکھ بھال مُجھے کرنی پڑی ساتھ ہی امتحان کی
تیاری بھی کرنی ہوتی تھی تو کئی دفعہ کھانا پکاتے ہوۓکورس
کے نوٹس ساتھ رکھ کر کسی وقت نظر ڈالتی رہتی ۔ اباجی
مذاق میں کہتے کہ دھیان پڑھائ میں ہوتا ہے مگر کھانا بے

دھیانی میں بھی مزے داربنا لیتی ہو، پھرکہتے ، تُمہارے
بےدھیانی میں کئے گئے کام سب بہت اچھے ہو جایئں گے۔ اللہ
تعالی نے بی اے کے امتحان میں مُجھےبہت اچھے نمبروں
سے کامیابی عطأ کی تو مُجھے اس بات کا پکا یقین ہو گیا کہ یہ
صرف اباجی کی خاص دُعاؤں کا ہی نتیجہ ہے ورنہ تیاری کا تو
کوئ خاص موقع نہیں تھا ۔ پھراباجی نے شُکرانے کے طور پر
اسپیشل لڈو بنوا کر میری کامیابی کی خوشی میں محلے میں
تقسیم کروائے۔
فطرت کے خوبصورت نظاروں کے دلدادہ تھے قُدرتی حُسن
اور سبزہ زاروں ، پھولوں ،پودوں کے شوقین تھے۔اپنے گھر
کے بیک یارڈ اور با لکونی میں رنگا رنگ پھول لگاتےگرمیوں
میں خوب باغبانی کرتےکئی دفعہ فون کر کے کہتےکہ اپنے
اباجی کا باغ آکر دیکھ جاؤ کیسا خوبصورت لگ رہا ہے۔ گر
میوں میں پارک جا کر فیملی پکنک کرنے کا بہت شوق
تھاخوبصورت جگہوں پر جا کر بہت انجواۓ کرتے، ہماری
توجہ خالق حقیقی کے ازلی و ابدی حسن کی طرف مبذول
کرواتے اور اللہ کا بے حد شُکر ادا کرتے اور نوافل ادا کرتے۔ ،
پوتے پوتیوں ، نواسے نواسیوں کے ساتھ خوب انجوائے کرتے
ان کے ساتھ دوڑیں بھی لگاتے اور ان کی معصومانہ کھیلوں
میں شامل ہوتےاور باجماعت نمازیں بھی کرواتے۔
اکثربچوں کو اکھٹا بٹھا کر ان سے کُچھ نہ کُچھ سُنتے نماز ،
سورتیں ، وغیرہ پھر اس کی آسان لفظوں میں تفسیر فرماتے،

ایک دفعہ سورہ فاتحہ کی بہت پیاری آسان فہم انداز میں تفسیر
بیان کی جو ہم نے
ریکارڈ کرلی ۔ غرض اباجی نے زندگی کے ہر حُسن سے
وافرحصہ پایا ،اُسکی لطافتوں کورب حقیقی کی محبت میں
محسوس کیا اور بھر پور لُطف اُٹھایا اور ہمیشہ اپنے رب کے
حضورعجز و نیاز سےبے انتہاشُکر ادا کیا ۔اور اُس پیارے رب
کریم نے اُنہیں ہمیشہ پہلے سے بڑھکردین و نیا کی ہر نعمت
اورحسنات دارین سے نوازا،الحمدللہ علیٰ ذٰلک۔
اباجی اپنی وفات سے دو روز قبل امی جی سے کہنے لگے کی
رات اللہ تعالیٰ نے مُجھے ایسے باغوں کی سیر کروائ ہے اور
ایسی نعمتیں دکھائ ہیں کہ اس دُنیا میں اُن کی خوبصورتی اور
لذت کا بیان ممکن نہیں ۔ امی جی کہنے لگیں کہ آپ تو خوش
قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسی دُنیا میں آپکوبہشت کی سیر کروا
دی ہے۔ اس بات کا تو خیال بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ تو اپنے
بندے کو اپنے پاس بُلانےکاانتظام کر چُکا ہےاوراگلے جہاں کا
نظارہ بھی دیکھا دیا ہے۔اس خواب کے دو دن کے بعدمشن ہاؤس
بیت الااسلام جماعت احمدیہ کینیڈا کےدفتر میں اپنے شعبے کی
فائل پر کام کرتے ہوئے شدیدہارٹ اٹیک ہو گیاساتھ اور احباب
بھی موجود تھے،اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ عین اس وقت پر میرے
بڑےبھائی جان چوہدری نصیر احمد صاحب اپنےکسی کام سے
اچانک وہاں موقع پرہی پہنچ گئے ،ایمبولینس پر اسپتال لے
جایاگیامگر اگلے دن اگست۱۹۹۶ میں ۷۴ برس کی عُمر میں
اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

اباجی نے اپنی زندگی آخری سانس تک خدمت دین کی خاطر
گُزاری ، اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔اللہم اغفر لہ
وارحمہ وادخلہ فی جنت الفردوس۔آمین
اباجی نے ہمیں اپنی بساط سے بڑھ کر ہر سہولت اور خوشی دی
۔ ، باپ کی حثیت سے ہماری ہرجائز خواہش پوری کی ہر ذمہ
داری بحسن و خوبی ادا کی اورملازمت کے لئے ہماری خاطر
جُدایئوں کے دن اورلمبےسفردُعاؤں سے کاٹے۔ آپ ہمارے لیے
ایک ایسا شجر سایہ دار تھےجس کے ساۓ میں رب کے شُکر
،حمد،اور دُعاؤ ں کے لازوال نعمتوں کے خزانے تھے۔.
اے میرے رب رحیم و کریم!میرے اباجی تیری بزرگ ذات
کریمانہ اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور حضرت مسیح موعؑود
کے سچے اور پکے عاشق صادق تھے،اللہ تعالی آخرت میں اُنہیں بلند
درجات اور اپنے پیاروں کے قُرب میں جگہ دےکر بے حساب
مغفرت فرمائے، آمین۔