“عید اور دل کی کسک”
سب مذاہب میں ان کے مذہبی تہوار ہیں ہر مذہب والے اسے اپنے طریقہ سے مناتے ہیں اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لئے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں – ان تہواروں کو عید کہا جاتا ہے – عید منا نے کے انداز اور طریقے سے امت کی یک جہتی جھلکتی ہے – ایک صف میں امیر غریب کا کھڑے ہونا اور پھر سب کا گلے لگ کر ملنا بتاتا ہے کہ آج کے دن سب نے دلوں کو کدورتوں سے پاک کر لیا ہے- جب دل صاف ہو جاتے ہیں تو پھر سب کی خو شیاں اور دکھ بھی سانجھے ہو جاتے ہیں –
اس دن سب مسلمان خوش ہوتے ہیں -اپنی اپنی ہمت کے مطابق انہوں نے خداتعالی کی عبادت کا حق ادا کیا خدا تعالی کی خوشنودی کے لئے قربانی دی- عید کے تہوار کو اسی خوشی میں مناتے ہیں –
عید کی خوشی کو محسوس کرتے ہی یہ خیال آتا ہے کہ تمام امت مسلمہ آج کے دن خوش ہے-وہ دنیا کے کسی بھی کونہ میں ہوں وہ خوشی منا رہے ہونگے – یعنی آج سانجھی خوشی کا دن ہے-
مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں- بلکہ مسلمانوں کو ایک بدن کی طرح کہا گیا ہےاگر بدن میں کسی ایک عضو کو تکلیف ہوگی تو سارا بدن اس تکلیف کو محسوس کرےگا اسی طرح مسلمان کسی بھی جگہ کسی بھی خطہ میں تکلیف میں ہو نگے تو ان کا درد تمام مسلمانوں کے لئے ایک سا ہوگا-
-اب اگر وہ کشمیری مسلمان ہوں یا کابل کے دھماکے کے متاثرین ہوں یا فلسطین کے معصوم عبادت گزار ہوں- سب خدا کو ماننے والے اس کے رسول کو ماننے والے ہیں – ان سب کا دردایک درد مشترک ہے یہ وہی درد ہے جس کی کسک آج عید منانے والے ہر مسلمان کے دل میں ہے-
عید تو خدا تعالی کے حکم کے مطابق منائی ہی جائے گی اور یہ وہ خوشی ہے جس کو مناتے ہوئے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ہوگا کیونکہ خدا نے یہ خوشی فرض کی ہے- لیکن اس خو شی میں درد کی کسک مو جود رہے گی- مسلمان ہر جگہ ہی ظلم کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں کہیں ان پر ظلم کرنے والے غیر ہیں اور کہیں اپنے ہی اپنوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں-
ظلم اگر غیر کرئے تو شائیددکھ کم ہو لیکن اگراپنے ہی ظلم کریں تو اس دکھ کا درماں کوئی نہیں اور یہ دکھ نا قابل برداشت ہے-
عیدین کے فلسفہ پر نظر ڈالیں تو وہ بھی قربانی اور مشقت کے بعد آتی ہیں -اور وہ قربانی چاہے خدا کے ایک بندے کی ہو یا پوری امت کی ہو اس کے بدلے میں پوری امت کو عید نصیب ہوتی ہے –
بلکل اسی طرح دکھ قوم کا ہو یا فرد واحد کا دکھ ہو اس کی نوعیت ایک ہی ہے- فرد واحد کی بات آئی تو دھیان ان معصوم لو گوں کی طرف چلا گیا جو فرد واحد کی حثیت سے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں اپنے ہی وطن میں اسیری کی صعو بتیں اٹھا رہے ہیں – وہ بھی اسی خدا کو مانتے ہیں اور ان کو سزا دینے والوں کا خدا بھی وہی ہے -ان کا حال بقول شاعر یہ ہے
” رقیبوں نے رپٹ لکھوائی جا جاکر تھانے میں
اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں”
بس ان کے جرم بھی اسی نوعیت کے ہیں-
ان کےبیوی بچے ماں باپ بھی اس گھڑی کے منتظر ہیں کہ کب ان کے پیاروں کی قربانی قبولیت کا درجہ پائے گی اورکب وہ سر خرو ہو کر زنداں سے باہر آئینگے اور کب وہ سب گھر والے حقیقی عید منائیںگے – خدا کرئے کہ وہ دن جلد آئے جب بحثیت امت بحثیت قوم بحثیت فرد واحد حقیقی عیدیں ہوں نہ کہیں سے دھماکوں کی خبر آئے نہ کسی کو جلایا جائے نہ کسی کو گھروں سے بے گھر کیا جائےنہ ہی کسی کو بنا جرم سزا دی جائےنہ کوئی درد ہو نہ کوئی کسک ہو-
متعلقہ
عجیب مافوق سلسلہ تھا۔۔۔از ، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
غزل ، از ، طاہر احمد بھٹی
Are Wills really Free?