سن دو ہزار دو میں اسلام آباد کے ایک گھر میں ہم کتابیں جھاڑ رہے تھے اور پاس ہی پالنے میں پڑی دو مہینے کی ایک بچی پر اس کی کچھ گرد پڑ رہی تھی۔ بچی کی ماں نے آواز لگائی کہ خیال کریں گرد بچی پر پڑ رہی ہے، تو میں نے کہا کہ فکر نہ کرو یہ روحانی خزائن کی جلدوں کی گرد ہے اس کا نتیجہ کچھ اور ہی نکلے گا۔
بات آئی گئی ہو گئی مگر جملہ کہیں جگہ پا گیا۔
دو سال بعد ایک ایسے کالم نگار اور دانشور کا انٹرویو کر رہے تھے کہ جس کے ایک جملے میں کرنٹ افیئرز کا ایک مقالہ نمٹا دیا جاتا تھا۔
ان کے جملوں کے نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
پاکستانی افواج گلف وار کے دنوں میں سعودی عریبیہ بھجوانے کے اگلے دن وزیر اعظم پاکستان کا بیان چھپا کہ ہماری افواج وہاں غیر جانبدار رہیں گی۔
اگلے دن کے کالم میں منو بھائی کا جملہ تھا کہ،
جب کسی ایک ملک کی فوج کسی دوسرے ملک میں جا کر کسی تیسرے ملک کی سرحد پر کھڑی ہو تو وہ غیر جانبدار کیسے ہو سکتی ہے؟
اسی طرح، وزیر خزانہ کا بیان شہہ سرخی کی صورت میں چھپا کہ،
معاشی خوشحالی ہماری گلی کا موڑ مڑ چکی ہے۔
اگلے دن منو بھائی کے کالم میں یہ جملہ تھا کہ،
ٹھیک ہے خوشحالی ہماری گلی کا موڑ مڑ چکی ہے مگر سوال یہ ہے کا، اس کا منہ ہماری طرف ہے یا کہ پشت؟
تو دوران انٹرویو وہ ڈھائی سالہ بچی منو بھائی کی گود چڑھ کر بسکٹ سے بہلائی جا رہی ہے۔
ایک سال بعد ڈاکٹر طارق رحمان جو ساؤتھ ایشیاء میں لنگوسٹک سکالر کے طور پر نمایاں شہرت رکھتے ہیں ان کی مجلس میں بھی موجود ہے ۔
راتوں کو اٹھ کر کسی لفظ کے معنی اور استعمال پوچھتی ہے اور ایک بار تو حیران کر دیا۔
پانچ سال سے کم ہی تھی اور باپ کے کاندھوں پہ سوار تھی اور دادی نے کہا کہ گر نہ جانا، پاپا کے ساتھ چمٹ جاؤ۔
پلٹ کے کہنے لگی، دادو،
پاپا ہیں ، کوئی خلافت تو نہیں کہ اس سے چمٹ جاؤں۔
پتہ نہیں کس لمحے میں کسی خطبہ جمعہ سے خلافت سے چمٹے رہنے کا مفہوم اتنے تلازموں کے ساتھ اخذ کیا ہو گا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے!
پھر نصرت جہاں اکیڈمی اور نصرت جہاں کالج سے ہوتی ہوئی دو سال قبل فرینکفرٹ میں آئی اور یونیورسٹیوں میں درخواستیں ڈالنے اور جرمن زبان کے بی ون اور سی ون کے رٹے لگاتے ہوئے اس نے کب وہ آرٹیکل لکھا جس میں اقوامِ متحدہ کو آئینہ دکھایا کہ جن طبقات کی حق تلفیوں کے ازالے اور داد رسی پر آپ کا سٹرکچر کھڑا ہے انہوں طبقات کی نمائندگی آپ کے اداروں میں ناپید ہے۔
کب اس آرٹیکل پر ووٹنگ ہوئی اور کب دنیا بھر سے پچاس نمائندے منتخب ہوئے ، ہمیں نہیں پتا چلا البتہ پچھلے ہفتے اسی لڑکی کو ہم نے بغیر گریجوئیشن کی بیساکھیوں اور بغیر تیس سال سے زائد عمر کی تجرباتی رعونت کے ، جنیوا میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں بین الاقوامی فورم پر بات کرتے سنا اور دیکھا۔
جائے حیرت ہے کہ آئینے کے اندر آئینہ!
یہی سوچ کر رہ گئے کہ،
جب سماعت پہ ہو نزولِ کلام
واسطہ پھر ہوا نہیں ہوتی
کسی دوست نہ پوچھا کہ آپ نے لکھنے بولنے میں کچھ مدد دی ہو گی،
عرض کیا کہ ورطہِ حیرت سے باہر ہوتے تو کچھ مدد کرتے، مجھے تو یہ سب ، ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء ، کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا البتہ ایک بات پر یقین پختہ ہوا کہ اگلی صدی میں جو اسلوبِ تحریر و تقریر ہماری نسلوں کو درکار ہے وہ زمینی کوششوں سے زیادہ آسمانی پانی کا ہی مرہونِ منت ہے۔
چمٹ جانے کے مفہوم کو واعتصمو کی روشنی میں سمجھنے کے لئے زمینی دانش اور ادارہ جاتی ڈگریوں سے زیادہ آسمانی تفہیم اور فطرت میں جاگزیں ادراک ہی کام آتا ہے اور ان چشموں سے پانی پینا مخلوق نہیں سکھا سکتی، یہ اسی خالق کا کام ہے جو چند منٹ کے بچے کو پستان سے دودھ پینا سکھاتا ہے۔
آئینہ ابصار کی ٹیم کو اس دو روزہ کانفرنس کی کوریج کا موقع ملا اور ہم وہاں سے اپنے ناظرین و قارئین کے لئے بہت کچھ سمیٹ کر لائے ہیں۔
بین الاقوامی طور پر یوتھ اور ان کے نمائیندگان کس نہج پر سوچ رہے ہیں، اور اپنی سوچوں کو کن خطوط پر آگے بڑھا رہے ہیں یا اپنے سے پہلے والی نسل سے کیا توقعات رکھتے ہیں اور کن باتوں پر کمپرومائز نہیں کر سکتے اور کن بنیادوں پر ایکٹوزم کو مضبوط کرنے کی تمنا رکھتے ہیں، اس نوعیت کے تفصیلی مکالمے اور خیالات ہم آپ کو پہنچائیں گے لیکن سرِ دست اس ابتدائی خیال آفرینی پرہی رک کر سوچا ہے اور سوچ کر رک گئے ہیں کہ،
تمہیں ان موسموں کی کیا خبر ملتی اگر ہم بھی
گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کر لیتے
ہماری موجودہ نسل نے گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل نہیں کی اور بین الاقوامی سطح پر جو ممکنہ اعلی سطحی پلیٹ فارم مہیا ہوا وہاں یہ سوال اٹھایا ہے کی ربوہ کا نام پاکستان کے نقشے سے سرکاری طور پر حذف ہونے کا بعد یو این او نے اپنے رکن ملک یا ممالک سے اس بنیادی حقوق کی پائمالی پر کیا ٹھوس اقدام کئے اور حقوق کی فراہمی کے لئے ان کو کہاں شامل کیا جن کے حقوق آئین اور ریاست نے مل کر سلب کئے؟
یہ سوالات اٹھانے والی لڑکی، ربوہ سے ہے، نصرت جہاں کالج کی ہے، وقفِ نو ہے اور
الحمد للہ راقم الحروف کی پہلی بیٹی ہے۔
“تمکنتِ علیاء “ہے
اور اسم بامسمی ٰ ہے۔
علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات
متعلقہ
Who is orchestrating these attacks, Reviewed by, Aiza Rabani, UK
پیرو چک یا کہیں بھی، یہ بربریت بند ہونی چاہئے۔ از، مونا فاروق
ہمارا کوئی کالم پرانا نہیں ہو پاتا، از ، طاہر احمد بھٹی