غزل، 28 جنوری 2022
بقاء کی گفتگو کی ہے، فناء کے لہجے میں
عجب طلب سی بھری ہے، غناء کے لہجے میں
یہ کیسا ربط کے اندر چھپا ہوا ہے گریز
سپردگی بھی ہے مدغم، اناء کے لہجے میں
ہے آئینوں کا تصادم یا عکس کی پیکار
کہ لمس گھل سا گیا ہے، ہوا کے لہجے میں
جو درمیان کا لمحہ نمود پر آئے
خموشی بول اٹھے، مدعا کے لہجے میں
مکالموں میں ہوئیں کرچیاں من و تو کی
کہ بال آ گئے شرم و حیاء کے لہجے میں
تمام لفظ ہی اب فیصلوں کے حامل ہیں
کتاب بول رہی ہے، قضاء کے لہجے میں
محبتوں کا تماشا بنے سوال و جواب
یہ بے دلی کا جہنم، وفا کے لہجے میں
طاہراحمد بھٹی، جرمنی
متعلقہ
پروفیسر رخشندہ بتول، جہلم، پاکستان
نظم۔۔۔ از سلطان ناصر، اسلام آباد
Who is orchestrating these attacks, Reviewed by, Aiza Rabani, UK