آج کچھ پوسٹ کرنے کا دل نہیں ہے ۔ پرسوں شام جب چھٹی کی خبر ملی تو ایک ملازم کے لیے فطری طور پر یہ خوشی کی بات ہی ہوتی ہے کہ اتوار کے بعد پھر اتوار مل جائے ۔ کل صبح آرام سے جاگی لیکن جیسے ہی انٹرنیٹ آن کیا تو مرید-کے کی تصویریں اور ویڈیوز دیکھ کر گھٹن بڑھ گئی ۔ کوئی کام کرنے کا دل نہیں چاہا سارا دن منٹو کا ایک افسانہ “سہائے” ذہن میں آتا رہا جس میں وہ لکھتا ہے ۔
’’یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں۔۔۔ یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔۔۔ اور یہ اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں، ٹریجڈی اصل میں یہ ہے کہ مارنے اور مرنے والے کسی بھی کھاتے میں نہیں گئے۔ ایک لاکھ ہندومار کر مسلمانوں نے یہ سمجھا ہو گا کہ ہندو مذہب مر گیا ہے۔ لیکن وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اسی طرح ایک لاکھ مسلمان قتل کر کے ہندوؤں نے بغلیں بجائی ہوں گی کہ اسلام ختم ہو گیا ہے مگر حقیقت آپ کے سامنے ہے۔ کہ اسلام پر ہلکی سے خراش بھی نہیں آئی۔۔۔ وہ لوگ بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکار کئے جا سکتے ہیں۔۔۔ مذہب ، دین ایمان، دھرم، یقین عقیدت۔۔۔ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم میں نہیں روح میں ہوتا ہے۔۔۔ چھر ے، چاقو اور گولی سے یہ کیسے فنا ہو سکتا ہے؟‘‘
(پروفیسر رخشندہ بتول صاحبہ نے اپنے طور پر اس جاری کشیدگی اور باہم دست و گریبانی پر اپنے اس مختصر شذرے سے پانی چھڑکنے کی کوشش کی ہے لیکن، بقول شاعر،
جان جاتی دکھائی دیتی ہے
تیرا آنا نظر نہیں آتا۔
تفہیم و استدلال کا ایسا قحط پڑا ہے کہ ایسے مضامین بھاڑ میں اکیلا چنا بن کر رہ گئے ہیں۔ ایڈیٹر)
متعلقہ
نظم۔۔۔ از سلطان ناصر، اسلام آباد
Who is orchestrating these attacks, Reviewed by, Aiza Rabani, UK
پیرو چک یا کہیں بھی، یہ بربریت بند ہونی چاہئے۔ از، مونا فاروق