سیالکوٹ کے نواحی گاؤں پیرو چک میں جو کچھ ہوا وہ ایک فرد کی موت کے بعد دفن کی جگہ پر تنازع نہیں، بلکہ اس ذہنی اور اخلاقی موت کا ثبوت ہے جس نے ہماری اجتماعی زندگی کو زہر آلود کر دیا ہے۔ ایک احمدی خاتون قدسیہ تبسم کو اپنے ہی قبرستان میں دفنانے کی اجازت نہ ملی۔ مرنے کے بعد بھی شناخت کی بنیاد پر زمین تنگ کر دی گئی۔ تدفین روکنے کا یہ عمل چند روز بعد ایک کھلی بربریت میں بدل گیا۔ احمدیوں کے گھروں پر حملے ہوئے، ڈیرے اور دکانیں جلادی گئیں، کھڑی گاڑیاں، ٹریکٹر اور حتیٰ کہ جانور بھی شعلوں کی نذر کر دیے گئے۔ ایک برادری کے روزگار، عزت اور وجود کو ایک ہی دن میں جلا کر خاکستر کرنے کی کوشش کی گئی۔
یہ سب اچانک نہیں تھا۔ پیرو چک میں احمدیوں کے خلاف یہ ماحول کوئی نیا نہیں۔ برسوں سے اُنہیں اپنے ہی قبرستان میں دفنانے نہیں دیا جا رہا۔ پچھلے ڈھائی سال میں چھ سے زیادہ احمدیوں کی میتیں دور دراز علاقوں میں لے جا کر دفن کرنی پڑیں۔ یہ اس زمین پر اُن کے حقِ ملکیت، حقِ سکونت اور اب حقِ تدفین کی بھی نفی ہے۔ اور جب اس سب پر احتجاج ہوا تو جواب میں گھروں اور روزگار پر حملے کیے گئے۔
یہاں سوال یہ بھی ہے کہ آخر ان حملوں کی منظم پشت پناہی کون کر رہا ہے؟ مقامی لوگ جانتے ہیں کہ تحریکِ لبیک جیسی جماعتیں کس طرح ایسے تنازعات کو ہوا دیتی ہیں۔ جلاؤ گھیراؤ اور ہنگامہ آرائی کوئی مقامی جھگڑا نہیں لگتی، یہ اُس منظم شدت پسندی کا شاخسانہ ہے جسے ریاست برسوں سے یا تو برداشت کرتی آئی ہے یا وقتاً فوقتاً اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ اور یہی سب سے بڑا المیہ ہے — کہ جنہیں لگام ڈالنی چاہیے تھی، اُنہیں کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پاکستان کے وزیراعظم اور آرمی چیف اقوامِ متحدہ میں کھڑے ہو کر انسانی حقوق کا راگ الاپ رہے تھے۔ وہاں وہ دنیا کو انصاف کا درس دے رہے تھے، فلسطین اور کشمیر کے لیے آواز بلند کر رہے تھے۔ مگر گھر کے اندر ایک احمدی کی قبر بھی محفوظ نہیں۔ گھروں کو آگ لگا دی گئی، روزگار اجاڑ دیا گیا، لیکن کسی بڑے گروہ یا تنظیم کی کھلی گرفتاری سامنے نہیں آئی۔ یہ وہ منافقت ہے جو پاکستان کو دنیا کے سامنے کھوکھلا اور غیر معتبر بناتی ہے۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ مسئلہ غربت یا سیاست سے زیادہ بنیادی ہے — یہ انصاف اور ضمیر کی موت ہے۔ اگر قبر بھی تقسیم کا شکار ہو جائے تو پھر یہ معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ احمدی ہوں یا کوئی اور، ان کے بنیادی انسانی حقوق کو روند دینا دراصل پاکستان کے اپنے وجود کو کمزور کرنا ہے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کو سمجھنا ہوگا کہ بین الاقوامی فورمز پر تقریریں کرنے سے پہلے اپنے ملک میں جلتی ہوئی آگ بجھانا ان کی اصل ذمہ داری ہے۔
پیرو چک کے یہ جلتے ہوئے گھر اور دکانیں صرف احمدیوں کا المیہ نہیں، یہ پاکستان کے اجتماعی ضمیر پر بدنما داغ ہیں۔ اور جب تک ریاست ان شدت پسند عناصر، چاہے وہ کسی بھی مذہبی لبادے میں ہوں، کے خلاف عملی اور بے لاگ کارروائی نہیں کرے گی، یہ آگ بڑھتی رہے گی — اور ایک دن ہر دروازے تک پہنچ جائے گی۔
اب ایک چھوٹا سا فرق دکھائی دیا: سیالکوٹ پولیس نے اس بار اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی اور درجنوں انسداد دہشتگردی کے پرچے کاٹے۔ لیکن افسوس، کئی شہروں کی بار ایسوسی ایشنز نے اس کارروائی پر احتجاج ریکارڈ کرایا، نہ یہ دیکھتے ہوئے کہ اصل مسئلہ احمدیوں پر ہونے والے مظالم تھے، بلکہ یہ کہ “مسلمانوں” کو گرفتار کیا گیا۔ گویا جرم کا وزن اُس کے مذہبی عقیدے کے مطابق طے ہونا چاہیے، نہ کہ اس کی نوعیت کے مطابق۔ یہ عجیب احمقانہ اور جاہلانہ منطق واضح کرتی ہے کہ ہمارا نظام عدل کس حد تک اپنا مقصد بھول چکا ہے۔
پیروچک کا واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عدالتوں، بار ایسوسی ایشنز اور ریاستی اداروں کا حقیقی امتحان صرف تقریریں یا مظاہرے نہیں، بلکہ عملی انصاف، برادریوں کی حفاظت اور انسانی حقوق کا تحفظ ہے۔ تب تک جب تک قانون کے عمل میں سب کے لیے یکساں اصول نافذ نہیں ہوں گے، یہ آگ اور نفرت ہمارے سماج کو جلاتی رہے گی۔ اور یاد رکھیں، پیروچک کی راکھ صرف گھروں اور دکانوں کی نہیں، ہمارے ضمیر، انصاف اور ریاست کی کمزوریوں کی بھی عکاس ہے—اور جب تک یہ آگ بجھائی نہیں جاتی، یہ ہر انسان، ہر برادری اور پورے سماج کو جلا کر خاکستر کر دے گی۔
متعلقہ
Who is orchestrating these attacks, Reviewed by, Aiza Rabani, UK
گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کر لیتے ، از ، طاہر احمد بھٹی
ہمارا کوئی کالم پرانا نہیں ہو پاتا، از ، طاہر احمد بھٹی