یک روزہ محبت، از قلم، سعدیہ طارق
مئی کا مہینہ شروع ہوتے ہی مدر ڈے کا چرچا شروع ہو جاتا ہے بازاروں میں مدر ڈے کی سیل لگ جاتی ہیں- 10 مئ کو تما م دنیا کے بچے ماں کو کوئی تحفہ دے کر اپنی محبت کی یقین دہانی کرواتے ہیں-لیکن یہ” ایک دن کی محبت” ہمیں اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے-
ہم جس دین کے پیروکار ہیں وہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے- اللہ کی کتاب ہماری ہدایت کا سر چشمہ ہے-رسول کی زندگی ہمارے لئے نمونہ ہے- تو پھر یہ غیر قوموں کی تقلید کیوں؟ بچوں کی تربیت اپنے مذہب اور اقدار کے مطابق کیوں نہ کریں ، تاکہ وہ والدین کے لئے کوئی خاص دن مقرر نہ کریں بلکہ ہر وقت ان کے لئے دعاگو ہوں- ہمارے خدا نے یہی سکھایا ہے کہ ہر نماز میں والدین کے لئے دعا کرو ان کے احسانوں کو یاد رکھو-اللہ تعالی نے جہاں ا پنے بار ے میں کوئی حکم دیا ہے وہیں والدین کے حقوق کا بھی ذکر فرمایاہے یعنی اپنے حقوق کے بعد ماں باپ کے حقوق کا درجہ رکھا ہے –
خداتعالی نے پہلے انسان کو ہر نعمت عطا کی اور پھر کہا کہ نعمت کا شکر کرنے والے کو اور زیادہ عطا کرونگا کیونکہ اللہ شکر کو پسند کرتا ہے- بلکل اسی اصول کو دیکھتے ہوئےماں باپ پر بھی فرض ہے کہ پہلے بچے کی تربیت کریں اسے کچھ سکھائیں پھر اس سے اپنےحقوق کی ادائیگی کی توقع کریں –
زمین بھی تبھی فصل دیتی ہے جب اس میں کچھ بویا جائے اگر بوئیں گے نہیں تو کاٹیں گے کیا، اس طرح بچہ کو بھی پہلے کچھ سکھایا جائے پھر اس سے توقعات وابستہ کی جائیں کہ وہ والدین کے حقوق کا خیال رکھیں- جسیے فصل کی بیجائی کا وقت ہوتا ہے بلکل اسی طرح تربیت کی بھی ایک عمر ہوتی ہے-اگر وہ عمر نکل جائے تو پھر پچھتاوا ہی رہ جاتا ہے- ضروری ہےکہ تربیت کی صحیح عمر کا بھی خیال رکھا جائے-آج سے چند دہائیاں پہلے مدر ڈے فادر ڈے کا کوئی تصور نہیں تھا -بچوں کا ہر دن مدر ڈے فادر ڈے ہوتا تھا والدین اپنے بچوں کی اچھی پرورش ،تعلیم و تربیت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے- بچوں کی تربیت کسی تعلیمی ادارے اور کسی تنظیمی مجلس کی ذمہ داری نہیں تھی بلکہ ماں باپ کی ذمہ داری تھی- اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے انہوں نے مشاغل پس پشت ڈال دئے اور بچوں کی دینی دنیاوی تربیت کو اپنی ترجیحات کا مرکز بنا لیا- اپنے جذبات قربان کئے ،اپنے وقت کو قربان کیا اپنی نیندیں سکون سب بچے کے لئے وقف کیے ان کے لئے راتیں جاگ کر خداتعالی سے دعائیں مانگیں اور خدا کی اس نعمت کو صیح انداز میں پرورش کرنے کے لئے اپنی زندگی کو نمونہ بنایا اور پھر کہیں جا کر نیک نسلوں کے وارث بنے-اور اولاد ان کے لئے دونوں جہانوں میں قرة العين ثابت ہوئی- ماں وہ ہستی ہے جس کے قدموں کے تلے اللہ کے رسول نے جنت کی بشارت دی ہے- لیکن آج کی ماں سے تربیت میں کہیں کمی رہ گئ کہ وہ “ایک دن کی محبت “والی مائیں بن گئیں- دور جدید کی ڈیجٹیل مصروفیات میں اپنی جنت کو بھول گئیں اپنے فرائض کو بھول گئیں – بچوں کو صرف اتنا ہی وقت دے پاتی ہیں جس میں انکی چند بنیادی ضروریات پوری ہوسکیں- پھر بچے کو بھی الیکڑانک ڈیوائس کے حوالے کیا اور خود بھی اس میں ہی گم ہوگئیں -جتنی توجہ اور وقت ماں بچےکو دئے گی اتنا ہی وہ آئندہ زندگی میں ماں کو لوٹائے گا- ماں کے چند گھنٹے لینے والا بچہ پھر اپنےوقت میں سے چند گھنٹے ہی لوٹائے گا – (ماں کے وقت سے مراد اس کی تربیت پر صرف ہونے والا وقت ہے)-“مدر ڈے” ماں کو اسکی ذمہ داریاں یاد دلا رہا ہے -ماں سےبچوں کے لئے وقت اورجذبات کی قربانی مانگ رہا ہے-والدین کو اپنے بچوں کے لئے نمونہ بننے کی ڈیمانڈ کر رہا ہے-
بچے والدین کو جو کچھ کرتے دیکھیں گے وہی کچھ وہ مستقبل میں کرینگے اگر ماں باپ عبادت گزار ، اپنے والدین کا حترام کرنے والے اور حقوق العباد کا خیال رکھنے والے ہونگے تو بچے بھی ایسے ہی بنیں گے- اگر ماں باپ ضدی منہ پھٹ گستاخ ہونگے تو بچے بھی ایسے ہونگے-بچے کی شخصیت پر ماں کے اخلاق کا اثرزیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ ماں کے پاس زیادہ وقت گزارتا ہے-اس لئےبچے کی تربیت میں ماں کی ذمہ داری بھی زیادہ بنتی ہےکیو نکہ جنت بھی خدا نے ماں کے قد موں کے نیچے رکھی ہے تو پھر جنت کا حق ادا کرنے کے لئےابھی وقت ہے کہ آج کی ماں بچوں کی تربیت کی طرف توجہ کرئے اپنے بچے کی تر بیت کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھے اپنے قول وفعل سے اولاد کے لئے بہترین نمونہ بنے اپنے مزاج میں ٹھہراؤاور برداشت پیدا کرے- اپنے بچے کومختلف اداروں اور سکولوں کے حوالے نہ کرئے اس کی تربیت کے لئے شارٹ کٹ اور گوگل سے طریقے نہ ڈھو نئے بلکہ اپنے کردار کو اس کے لئے مشعل را بنائے-اگر آج کی ماں نے اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ آہستہ آہستہ یہ “ایک دن کی محبت” بھی دم توڑ جائے اور نئ نسل ہر طرح کے رشتوں سے آزاد ہو جائے اللہ نہ کرئے ایسا ہو-اللہ کرئے کہ آج کی ماں کی گود میں پرورش پانے والی نسل حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والی ہو والدین لئے جنت کا زینہ ہو- ان کی تربیت بتائے کہ یہ وہ بچے ہیں جن کی ماوؤں کے “قد موں کے نیچے جنت ہے” – اور پھر ہر دن “مدر ڈے” ہو ایسا” مدر ڈے” جو ماں کی تربیت کو خراج تحسین پیش کر نے والا ہو۔
متعلقہ
عجیب مافوق سلسلہ تھا۔۔۔از ، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
غزل ، از ، طاہر احمد بھٹی
Are Wills really Free?