آپ لوگ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور آپ کے پیروں میں سانپ لوٹ رہے ہیں۔
آئی ایم ایف اور معیشت کی باتیں سنتے ہوئے گلیوں میں ہڑبونگ کی طرف دھیان نہیں جاتا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کو پارلیمنٹ منہ پر دے مارے تو اسے سیاسی ایکٹوزم سمجھا جا رہا تھا۔
میڈیا کی دھڑے بندیاں اور صاف صاف جھکاؤ کو آزادی رائے گردانتی ہوئی پاکستانی قوم اس بات سے بے خبر تھی کہ
مژگاں تو کھول ، شھر کو سیلاب لے گیا!
جس دن نیشنل سیکیورٹی کی میٹنگ ختم ہوتی ہے تو اسی دن ایک انجینئر مولوی پر توہین مذہب کا پرچہ کٹتا ہے۔
اگلے دن گرفتاری ابھی معرض التواء میں ہے اور ایک بیک اپ پر رکھا ہوا مولوی جہلم کی ایف آئی آر کو ناکافی قرار دے کر گجرات میں الگ پرچے کی ڈیمانڈ کرتا ہے اور ساتھ ساتھ امن کا دعوی کرتے ہوئے غازیوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اسے قتل کر دیں اور ایف آئی آر میں نامزد ملزم انجینئر محمد علی کے قتل کو فرض کفایہ قرار دیتا ہے۔
بول ٹی وی کے لوگو کے ساتھ ٹوئٹر پر ٹحفظ نامو س رسالت کے ترانے کچھ میک اپ سے گزارے ہوئے مولوی پڑھ رہے ہیں اور نامعلوم ملزمان کو سر قلم کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کی چھت گر چکی ہے اور پارلیمنٹ اس کی
گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو کے مصداق روز ایک نئی قرارداد پاس کر رہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ پر اتنے ننگے اور کھلے وار ہو چکے ہئں کہ اب وہ اپنی منصوبہ بندی میں کثیر الجہتی تلاش رہی ہے۔
ایسی کثیر الجہتی کی تلاش بتاتی ہے کہ اب کہ تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں
ایسی گو مگو میں مارشل لاء نہیں لگتے بلکہ صرف پارشل لاء رہ جاتا ہے۔
جس سے کچھ علاقے محفوظ کر کے امن قلعہ بند ہو جاتا ہے۔
پبلک املاک، عام لوگوں کے جان و مال کا بلا اسثناء تحفظ اور روزمرہ امن عامہ کی فراہمی ایک عیاشی سمجھی جاتی ہے جس کی متحمل قلعہ بند ریاستیں نہیں ہو سکتی ہیں۔
سادے لوگ سوال کرتے تھے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حکومت مانے نا مانے اس سے عام آدمی کو کیا؟
اس کو تو روٹی چاہئے۔
معیشت مضبوط ہو ، مہنگائی کنٹرول ہو۔
منہ زور دریاؤں کے پشتے ٹوٹیں تو کچی آبادیاں پہلے برباد ہوتی ہیں۔
آئین کا پشتہ ٹوٹا تو افضل قادریوں کی تشریحات مذہب اپنا راستا لیں گی اور جتھے ان کا نفاذ کریں گے۔
یہ مذہبی دھڑے مسلح ہونگے اور بندوق کے زور پر بھرتی کریں گے۔ ناموس وسائل اور اناج لوٹے گی اور مجمعوں کے زور پر اپنے سے اوپر والوں کی سہولت کاری کرے گی۔
جیسے بد ترین معاشرت میں بہترین معیشت قائم نہیں ہو سکتی اسی طرح بد نیت گروہوں اور مفاد پرست دھژوں میں گورنینس نہیں چل سکتی بلکہ صرف ڈنڈا لاء آف لینڈ ہوتا ہے۔
وہ گونگی شرافت اور خاموش سفید پوش اب یا تو اپنے کپڑے سر بازار اتروائیں گے یا قبل از وقت منظم ہو کر ان جھوٹے، مکار اور صریح فریب کاروں کا انکار کر دیں۔ وہ دن اب زیادہ دور نہیں ہیں جب ان کو نتھ مارنے کی بجائے نام نہاد انتظامیہ آپ کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑے گی۔
جب بھرتیاں ہی ہونی ہیں تو شرفاء کم از کم اپنے جیسوں کے ساتھ اپنا جینا مرنا طے کر لیں۔
اوپر سیاسی حقوق کی بکواس ہوتی رہے گی اور گلیوں میں یہ سانپ کھلے چھوڑ دئے جائیں گے۔
الامان الحفیظ
کون سی عدلیہ، کہاں کی پارلمنٹ اور کیہڑی اسٹیبلشمنٹ؟ اپنے اپنے بوہے بند کر لو۔
گل کرو شمعیں بڑھا دو مئے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
فیض احمد فیض کے وجدان نے جو گھپ انھیرا دیکھا تھا اب وہ تہہ در تہہ اتر رہا ہے۔
اب دروازہ پوچھ کر کھولیں۔
جس جان کو بچانے کے لئے آپ نے گونگی شرافت اوڑھ رکھی تھی اب اس کو ہتھیلی پر رکھے بغیر کام چلنے کا نہیں۔
دھن سار جاندا ویکھئے تے ادھا دئیے لٹا
علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات
متعلقہ
عجیب مافوق سلسلہ تھا۔۔۔از ، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
غزل ، از ، طاہر احمد بھٹی
Are Wills really Free?