آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

چنگا وئی چوہدری رؤف۔۔۔۔از ، طاہر احمد بھٹی

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

دوست شخصیت نہیں ہوتے، زیادہ سے سے زیادہ احباب کی سطح تک اتر سکتے ہیں ، اس سے آگے نہیں۔
چوہدری رؤف گجر کے قلب و نظر میں ہمارے حین حیات مستحضر رہنے اور وقت بے وقت یاد آوری کا یہی جواز ہے۔
جو اس میں کوئی ہنر بھی ہے تو مجھے تو اس کی خبر نہیں ہے


اور مصرعے کے موقف پر مستزاد یہ کہ مجھے اس خبر اور ادراک کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔
تین دہائیاں قبل پتا نہیں کہاں سے واپس آتے ہوئے چنیوٹ کے لاری اڈے پر ربوہ کی بس پر زبردستی سوار ہوتے وقت ہم غیر اعلانیہ شرکاء بنے اور بھلا ہو چناب پل کے زیر تعمیر ہونے کا کہ جس کی بدولت دس منٹ کا سفر گھنٹے بھر سے تجاوز کر گیا اور ہم دونوں کی صاحب سلامت وائرس کی رفتار سے ترقی کر گئی۔ اس کا خیال تھا کہ ربوے جانے والے احمدی کو ہانڈو گجر کا ضرور علم ہونا چاہئے اور مجھے یہ تعجب کہ ایسے کڈھب نام کی جگہ سنی نہیں، سیدھا لاہور ہی کیوں نہیں بتاتے۔ کیا ہانڈو کی سفارتی حیثیت تسلیم کئے بغیر گفتگو آگے نہیں چل سکتی۔
واجبی سی رسمی تعلیم کے باوجود جملہ چست ہونے پر اس کی آنکھیں چمکیں تو دانت بھی ساتھ شامل تھے۔ اس امتزاج سے بد ظنی کی کہ بندہ دلیر ہی نہیں صاحب ذوق بھی ہے۔
اڈے پر اتر کر کہنے لگا کہ لنگر خانے نوں کیہڑا راہ جاندا اے؟
میں نے کہا چلو دکھا دیتا ہوں، لنگر خانہ باہر سے دکھا کے ہم نے تانگے والے سے کہا کہ بس اب گھر چلو۔ وہ رات بیٹھک میں اور اگلا دن دوستوں سے ملے۔ آج تین دہائیاں بعد وہ سارے دوست اس کے جنازے اور تدفین میں شامل ہوئے اور۔۔۔میں؟
میں آج بھی تیس سال پہلے کی طرح اسی کو متعارف کروانے میں لگا ہوں۔
اسے کیفیت کی پھلجڑی چھوڑنے سے مطلب تھا اس کے اثرات سنبھالنے کا جھنجھٹ نہیں تھا۔ اس لئے جلدی جلدی جھولی بھر کے سدھار بھی گیا-
شعر یا واقعہ اس کے لئے اپنی ذاتی تفہیم اور نجی تلازمے رکھتے تھے اس لئے مجلس میں اس کی داد اور فریاد الگ بیٹھتی تھی۔
عبید اللہ علیم صاحب سے فرمائش یوں کرتا کہ وہ غزل سنائیں جس میں ہرن بھاگتے ہیں- وہ حیران ہیں کہ ایسی تو کوئی غزل لکھی ہی نہیں- بعد از کوشش بسیار عقدہ کھلا کہ موصوف اس شعر کو یاد دلا رہے ہیں جس کا مصرع یوں تھا کہ
بس یونہی موجیں بھریں یہ طائران خد و خال
مگر اس کی فرمائش کے لئے ان کے تلازمے بالکل نجی تھے۔ ہم نے اس کے ان تلازموں کے ساتھ تیس سال بتائے ہیں۔ اس لئے اب ہماری محرومی اور اداسی بھی ذاتی اور نجی نوعیت کی ہے البتہ اس میں چوہدری رؤف کے اخلاص و یگانگت کے رنگ آفاقی اور ہمہ گیریت سے بھر پور ہیں۔
اس نے زمانے اور ماحول میں چھائی ہوئی ٹیڑھ اور کجی کا توڑ احمدیت کی ذاتی تفہیم سے کیا اور اس ادراک کی روشنی اس کی مجلسی گفتگو سے عیاں ہوتی تھی۔
دلائل اور جوابی وار بتاتے تھے کہ اندر کے آلاؤ کو بجھنے نہیں دیتا اور بھڑکنے بھی نہیں دیتا۔ نانکے سارے غیر از جماعت تھے مگر اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے سب کے ساتھ تا دم آخر اچھی نبھائی اور رشتے داری میں فاصلہ نہیں آنے دیا۔
ایک بچی کی طویل بیماری میں جیسے وہ خود اس کرب سے گزرا اس کی مثال خال خال ہے۔ لڑکیوں کی اعلی تعلیم کے لئے اس نے کب ڈیرے داری والے بت توڑے اور کیسے حقوق ادا کرنے کے آداب چپکے سے کشید کئے اس پہ یہ شعر سنیں۔
جو ڈوبنا ہے تو ڈوبو اتنے سکون سے ڈوبو
کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتا نہ لگے
اس نے اپنے ماحول میں ایک نیا ترجمہ متعارف کروایا کہ دلیری کے معنی، ہتھ چھٹ اور بدکلام ہونا نہیں ہوتے بلکہ اس کا اصل ترجمہ کشادہ دلی، وسعت حوصلہ، مہمان نوازی اور کم یابی کے عالم میں دستیابی کے ہیں۔
اس نے زندگی کی تصویر میں ان رنگوں کا استعمال زیادہ کیا اگرچہ دیگر رنگ بھی بنیادی سکیچ کا حصہ نظر آتے ہیں۔
مجھ سے ہمیشہ سے ہی ، او بھٹیا والا تعلق تھا اور آخر آخر میرے پروگراموں کو باقاعدہ دیکھ کر کچھ حیرت اور کچھ غرور کر کے مجھے ستائش کر کے شرمندہ کرنے لگ گیا تھا-
جیندیاں جیندیاں مل جا کا ترجمہ مجھے کل تک بھی سمجھ نہیں آیا!
اس کی وفات کی اطلاع نے آ کر بتایا کہ وہ اصل میں کہنا کیا چاہتا تھا۔
جاہل کہیں کا۔۔۔۔۔!
اللہ اس کے ساتھ ظلوماً جہولا والا سلوک فرمائے اور اس کے بچوں کو اس سے زیادہ کامیاب و کامگار فرمائے جتنا وہ خود ان کے لئے سوچتا تھا۔
ہمارا ساتھ عمر بھر کا ہے اس لئے چند دن کی تعزیت پہ دل نہیں ٹھہرتا۔
طاہر فرازکا ایک شعر اور پھر۔۔۔۔چنگا وئی چوہدری!!!
وقت رخصت انہیں رخصت کرنے
ہم بھی تاحد نظر جاتے ہیں۔