یہ زندگی ہے کہانی
تمہیں سنانی ہے
شباب رت کے شگوفے بڑے معطر ہیں
مشام جاں میں اتار کر خوشبو
حصار ذات میں بھر کر وفورِ شوق کی آگ
اترتی پھیلتی یہ رات جگمگانی ہے
ظہور صبح سے پہلے اجالنے ہیں ہمیں
وہ خدوخال جو ابھرے ہیں گود سے شب کی
اب ان کا چہرہ اجالنا ہے ہمیں۔
سلگتی آنکھوں کو اشکوں سے آب دینی ہے
سسکتے ہونٹوں کو جذبوں کی تاب دینی ہے
جو جھٹکے گئے ان میں کتاب دینی ہے
جو پاؤں اکھڑے ہیں ان کو رکاب دینی ہے۔
تو زندگی ، جو کہانی تجھے سنانی ہے
فقط کہانی ہی کیا۔
اور خود یہ زندگانی بھی کیا؟
ہے دھوپ چھاؤں کے جیسا یہ ایک ربط و گریز
کہ جس سے الجھی ہوئی ہے حیاتِ ماجرا خیز
اب اس کے بنتے بگڑتے سے دائروں کے بیچ
ہمیں پڑاؤ ہے کرنا کہ مستقل رہنا؟
تمہیں ہے پوچھنا ہم سے یا ہم کو خود کہنا؟
اسی طرح کے سوالوں کے بیچ لکھی ہے
غزل جو ہم نے وہی سینت سینت رکھی ہے۔
کہیں جو صبح کھلے ہم
یا کنجِ لب سے ملے ہم
تو دل میں ٹھانی ہے
اکیلے بیٹھ کے دھڑکن کے تان پورے پر
کہانی چھوڑ کر بس غزل گنگنانی ہے۔
کہانی کیا ہے
تسلسل میں زندگانی ہے
اگر ملو تو کہانی تمہیں سنانی ہے
جو تم سنو تو۔۔۔
غزل پھر سے گنگنانی ہے۔
طاہر احمد بھٹی، جرمنی
متعلقہ
عجیب مافوق سلسلہ تھا۔۔۔از ، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
غزل ، از ، طاہر احمد بھٹی
Are Wills really Free?