ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے
Happy women’s day
سوچنے والوں کے لیے غالب کے اس شعر میں فکر و تدبر کے کئی زاوئیے ہیں۔
غالب کے وہ معتقدین جو اس کے کلام اور فکر پر گہرائی اور گیرائی سے غور کرتے رہتے ہیں ، وہ ہستی کے جھگڑوں سے پرے ، ہر قسم کے تفرقے اور امتیاز سے اوپر اٹھ جاتے ہیں ۔
نفرت ، حقارت اور تعصب کسی ادیب کو ہر گز زیب نہیں دیتا ۔ جو علم و ادب کی راہوں پر چلنے کا دعویٰ رکھتا ہے اور پھر بھی اس کی تحریر و تقریر میں کسی مخصوص طبقے کے لیے تعصب پایا جاتا ہے وہ اپنے علم و ادب کے دعوے میں جھوٹا ہے ۔ اس کا علم و ادب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
ہر انسان بلا امتیاز جنس ، رنگ ، نسل ، صنف ، قوم ، مذہب ، فرقے یا طبقے کے برابر ہے ۔
جن معاشروں میں انسانوں کے بیچ تفریق اور امتیاز روا رکھا جاتا ہے ۔ وہ انتشار اور فساد کا شکار رہتے ہیں ۔
یوم خواتین پر پاک و ہند میں ہر خاص و عام عورت کی آزادی ، مساوات اور مرد کے برابر ، حقوق دینے یا نہ دینے پر گفتگو کرتا نظر آتا ہے ۔ اور ہر دو موقف کے حامی گفتگو کرتے ہوئے نفرت اور تعصب کی انتہاؤں کو چھو رہے ہوتے ہیں ۔ جہاں عورت کی آزادی کے قائل اپنا مقدمہ بہت ہی بھونڈے طریقے سے پیش کر رہے ہیں وہیں اس کے مخالف بھی تمام اخلاقی حدود کو پامال کرتے ہوئے انہیں برا بھلا کہہ رہے ہیں ۔
عورت اور مرد کی برابری کے حوالے سے بس اتنا کہوں گا کہ اس کا حامی طبقہ یوروپ و امریکہ کے تناظر میں جب برابری کی بات کرتا ہے تو یہ بات قطعی بھول جاتا ہے کہ یہاں عورت اگر حقوق میں مرد کے برابر ہے تو فرائض میں بھی برابر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے ۔ اسی طرح جن اشتعال انگیز نعروں کے پلے کارڈ اٹھا کر یہ طبقہ مظاہرے کرتا نظر آتا ہے ۔ ویسی باتیں اگر یوروپ و امریکہ کی عورتیں بھی اپنے ساتھی سے کریں تو وہ چند دن بھی ایک ساتھ نہ رہ سکیں ۔
عورت اور مرد کا تعلق جیون ساتھی کا ہو ، دوست کا ہو یا کسی اور رشتے کا اس میں اگر باہمی عزت و احترام نہیں ہے ۔ محبت اور خلوص نہیں ہے ۔ ایثار و قربانی کے جذبات نہیں ہیں تو ایسا تعلق زیادہ دیر چل ہی نہیں سکتا ۔ نفرت انگیز اور پرانتشارسوچ سے دلوں کا سکون بھی غارت ہوتا ہے ، گھر بھی ٹوٹتے ہیں اور بلآخر معاشرے میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔
وحید قمر
فرینکفرٹ ، جرمنی
متعلقہ
عجیب مافوق سلسلہ تھا۔۔۔از ، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
غزل ، از ، طاہر احمد بھٹی
Are Wills really Free?