آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

خواب ہوئے سب شہر بدر، از آذر لقمان

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

ذاتی کیقیات اپنا استعاراتی نظام اور تاثیراتی تام جھام کس طرح اپنے جلو میں لے کر چلتی ہیں اس کی ایک مثال ہمارے تیس سال پرانے دوست کے اشعار میں ملاحظہ فرمائیں اور ولی دکنی کے اس ادعا کی تصدیق کیجئے کہ،
راہ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے باب سخن

آذر لقمان کے پہلے مجموعہ سے مشت از خروارے

منظر ، بادل ، رات اور گھر
خوشبو ، یادیں ، شام نگر

باتیں ، رات ، اور سرخ گلاب
خوشبو ، ریت ۔ پڑی گھر گھر

کیسی رُت میں آئے ہو
خواب ہوئے سب شہر بدر

اب اس چھوٹی بحر کے بعد نسبتاٌ تفصیلی اظہار ملاحظہ ہو،

پھر سے عذابِ دردِ محبت سمیٹنے
اپنے خیال و خواب کی گلیوں میں جائیے
سینے میں جل اٹھے ہیں کسی یاد کے چراغ
کہتے ہیں وہ کہ آج کے دن ، کچھ سنائیے
وہ جن کے خدو خال میں اک تازگی سی ہے
ان ساعتوں کو آج کی شب پھر جگائیے
موسم گزر چلا ہے میرے انتظار کا
لو بڑھ چلے ہیں شام کے سائے، اب آئیے

لقمان احمد، پاکستان