آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

جنگی ہیجان کے درمیان سنجیدہ سوال، از، عدنان رحمت

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

اب سب کچھ بدل گیا ہے۔
اس موجودہ صورتحال میں بہت سارے مفروضے ٹوٹ گئے ہیں۔ مثلا یہ کہ نیوکلئر پاور ہونے کی وجہ سے کوئی پاکستان پہ حملہ نہیں کرے گا۔ آج پانچ دہائیوں میں پہلی بار انڈیا نے پاکستان پہ (ڈرون کے زریعے) سٹرائکس کی ہیں۔ یہ بڑا ملٹری سنگ میل ہے۔ سنہ 1971 کے بعد پہلی بار آزاد کشمیر کے علاوہ کسی پاکستانی علاقے پہ انڈین ملٹری کی جانب سے حملہ ہوا ہے۔ اور ایک نہیں بلکہ کم از کم نو شہروں پر ـ بشمول دو صوبائی صدر شہر لاہور اور کراچی پر۔ دو صوبوں بلکہ خیبر پختونخوا کے قریب بھی اٹیک ہو گئے ہیں۔ تو یہ تو ثابت ہو گیا کہ پورا پاکستانی رقبہ انڈین اسلحے کے زد میں ہے۔ جی ایچ کیو بھی زد میں ہے (پنڈی پہ بھی ڈرون مارا ہے)۔ اور لاہور میں ڈی ایچ اے پہ ڈرون پھینک کے ثابت کیا کہ فوجی افسران کے خاندان بھی محفوظ نہیں۔ تو یہ خیال بھی آج کئی دہائیوں بعد غلط ثابت ہوا کہ انڈیا جنگ نہیں چاہتا اور پاکستان پہ اٹیک میں پہل نہیں کرے گا۔ اور ابھی تو میزایل سے لیس کئے بغیر سادہ ڈرون مارے ہیں۔ آدھے سے زیادہ ملک کے طول و عرض پہ آج کے کئے گئے ملٹری ڈرون اٹیک کوئی خاص نقصان کرنے کے بجائے یہ ثابت کرنے کے لئے تھے کہ انڈیا کنوینشنل وار کے لئے اب ہمیشہ تیار رہے گا۔ اور نیوکلیئر وار کے رسک کو گلے لگا کر پاکستان کی ایٹمی خوف کی ڈاکٹرائن کو عملا نیوٹرالائز کر دیا ہے۔ آج کے بعد پاکستان کی موجودہ سیکورٹی ڈاکٹرائن کی حیثیت غیر متعلقہ سی ہو گئی ہے۔ اسلئے کہ انڈیا کی طرف سے اتنی سارے شہروں پہ علامتی حملے اگر پاکستان نظر انداز کرتا ہے تو یہ فوجی شکست سمجھی جائے گی اور اگر پاکستان بھڑک کر انڈیا پر جوابی حملہ کرتا ہے تو پھر باقاعدہ جنگ کا آغاز ہو گا اور وہ جنگ پھر پاکستان کے لئے کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
انڈیا نے آج پاکستان کے حوالے سے ملٹری حکمت عملی کے حوالے سے موجود ابہام ختم کر دیا ہے اور پاکستان کے پاس اب صرف دو راستے چھوڑے ہیں –
یا تو سیکورٹی سٹیٹ سے نارمل سٹیٹ بنے یا پھر آر پار کی فیصلہ کن جنگ اور اس کے نتائج بھگتے۔
پاکستان کی فوج کا 1971 کے بعد کا سب سے مشکل امتحان آن پہنچا ہے۔
دیکھیں اس دفعہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
البتہ دونوں طرف بات اب گلے پڑا ڈھول بجانے کی فلاسفی سے آگے نکل گئی ہے۔