شخصیات اور ان سے وابستہ تاثرات کی باز آفرینی ایک مشکل سا نفسیاتی معمہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن انسان کے رد و قبول کی سلیٹ پر ایک منظم اور انمٹ نقش بھی قرار پا سکتا ہے۔ اور جبکہ آپ کی ملاقات بھی صرف ایک ہی ہو تو اس صورت میں نقش چھوڑنے والے کو ایک بار پھر سے دیکھنا پڑتا ہے۔
سڑک پر ایستادہ سارے درخت تو ایسا جواز نہیں تراش پاتے کے آپ ان کے سراپے اور چھاؤں یا چھتنار پنے کی کسی تازہ تر زاوئیے سے تحقیق و تفتیش پر نکل کھڑے ہوں۔
مرحوم و مغفور سردار اسحاق خاں ایڈوکیٹ کی چھتنار شخصیت سے کئی دہائیوں بعد دوبارہ ملاقات اور پہلی ملاقات کے نقشِ اولیں میں حال کی کچھ پرچھائیوں کی تلاش بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔
قارئین کے لئے یہ سہولت ہے کہ آپ اس بازآفرینی کو داخلی نوعیت کا سلسلہِ خیال کہہ کر آگے بڑھ جائیں مگر راقم کے لئے ،
یہ معاملہ کوئی اور ہے ، والی بات ہے۔
سردار صاحب سے غائبانہ تعارف مجھے یوں تھا کہ اس زمانے میں انہوں نے ایک مقدمے کی پیروی کی تھی جو ملک ہارون سلطان آف اٹک کےخلاف تھا اور اس میں سردار اسحق صاحب وہ کیس جیتے تھے اور کیس اتنا اوپن اینڈ شٹ قسم کا نہیں تھا۔
جب ہم نے لاء کالج میں داخلہ لیا تو اس فیلڈ کے وضع داروں اور نقطہ دانوں اور نقطہ طرازوں میں مجھے دلچسپی زیادہ تھی اور قانون اور قانون دانوں میں کم۔
اسی لئے میں اس کھکھیڑ سے جسے لاء کالج کہئیے، دو سال بعد اسلم خاکی صاحب، سردار عبدالسمیع صاحب اور سید مجتبی حیدر شیرازی صاحب سے تعارف اور یک گونہ بے تکلفی کی سند لے کر الگ ہو بیٹھا اور میرے ہم جماعت، کچھ سپریم کورٹ کے وکلاء بن گئے اور ایک دو ججز بھی ہو گئے مگر ہم،
رات باقی تھی جب وہ بچھڑا تھا
عمر گزری ہے رات باقی ہے !
کا الاپ کر رہے ہیں۔
لا قانونیت سے انسانیت بر سر پیکار ہے، ایسے میں جیورسپروڈنس کہاں کی۔
ان دنوں ہمارے ایک دوست قوسین فیصل مفتی نے سردار اسحاق خان صاحب کی لاء فرم جوائن کی اور ہمیں ان سے اپنے سینئر اور گویا استاد کی وضع داریوں کے تذکرے سننے کو ملتے تھے۔
ایک دن سردار اسحاق خان صاحب نے اپنے خورد قوسین اور اس کے توسط سے دو اور دوستوں کو شام کی چائے پر پنڈی کے پرل کانٹینٹل دعوت دی۔
یہ شام ان سے پہلی اور آخری ملاقات تھی جس میں کوئی کیس زیر گفتگو نہ آیا بلکہ روزمرہ رکھ رکھاؤ میں انحطاط سے بات چلی، شعر اور غزل سے ہوتی ہوئی گائیکی میں روز افزوں مبتذل ذوق کی طرف چل نکلی۔
عین اس لمحے ہوٹل میں لائیو میوزک پیش کرنے والی خاتون نے آواز لگائی کہ، میری تلاش تیری دلکشی رہے باقی اور ہم چاروں نے چائے کے کپ رکھ دئیے کہ اس مصروفیت سے بھی سماعت کے آداب مجروح ہوتے تھے۔
اس مجلس سے یہ طے ہوا کہ وکیل کو لاء کے علاوہ کم سے کم کتنا صاحب علم ہونا چاہئے اور اس میں انسانی ذات اور انسانی معاشرت کے لئے کس سطح کے حقیقی درد اور پرواہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس کے بغیر آپ تحریکیں چلا سکتے ہیں مگر تاثر نہیں چھوڑ سکتے۔ آپ بہت سے درختوں میں سے ایک ہو سکتے ہیں مگر کڑی دھوپ میں اکیلے چھتنار نہیں بن سکتے۔
موافق موسم میں سر سبز رہ سکتے ہیں مگر نا امیدی اور لاحاصل کوششوں کے دوسرے سرے پر ایستادہ رہنا اور چھاؤں سے منکر نہ ہونا، یہ عامیانہ اور خود رو روئیدگی کے بس کی بات نہیں۔
صابر ظفر کا ایک شعر سنیں اور باز آفرینی کے جواز کا لطف اٹھائیے،کہ
میں گھنا پیڑ ہوں آیا بھی جو میرے سائے کو زوال
ان خزاؤں سے بہت دور گریں گے میرے پتے جاکر
بات کو سمیٹتے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں سے بلاسفیمی گینگ اور اس کے سرغنوں کے خلاف ایک کمشن کی تشکیل بارے کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے اور اس کی لائیو کورج کی بدولت ہم سردار اسحاق خان مرحوم کے صاحبزادے، آنریبل جسٹس سردار اعجاز صاحب کو دیکھ اور سن رہے ہیں۔ کیس کے ساتھ کئی اتار چڑھاؤ اور اس معاشرے کی بے حسی کے عین بیچ اسی پیڑ کے تازہ ظہور کو دیکھتے ہوئے یہی وثوق شامل حال رہتا ہے کہ،
ان خزاؤ ں سے بہت دور گریں گے میرے پتے جاکر
اللہ اس ملک اور معاشرے کو حق بحقدار رسید کی بہار نصیب کرے اور جب تک بے آسرا سروں پر لاقانونیت کی بے رحم دھوپ تقدیر میں ہے تو ایسی خشک سالی میں چھتنار پیڑوں کے پاؤں نہ اکھڑنے پائیں۔ آمین
متعلقہ
بد کرداروں کے سامنے نیک چلنی کے مچلکے، از، مونا فاروق، امریکہ
آئین کے وجود پر غیر آئینی جذام، از مونا فاروق، امریکہ
Testing water with real stick, by, Nadia Ahmad.USA