آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

بد کرداروں کے سامنے نیک چلنی کے مچلکے، از، مونا فاروق، امریکہ

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

عبادت کو جرم، عبادت گزار کو مجرم بنانے والے کاغذی مچلکے

دنیا میں ظلم و ستم کا بازار تو ہر دور میں گرم رہا ہے، اور آج بھی مختلف خطوں میں معصوم لوگ جبر و استبداد کا شکار ہیں۔ مگر اس کے باوجود، انسانی شعور کی بیداری اور عالمی سطح پر انسانی وقار و مذہبی آزادی کے اصولوں کو وہ مقام مل چکا ہے جو کبھی خواب ہوا کرتا تھا۔ آج کی دنیا—خواہ وہ کتنی ہی ظلم سے آلودہ کیوں نہ ہو—انسانی وقار، ضمیر کی آزادی اور مذہبی شعائر کی حرمت کو بنیادی حق تسلیم کرتی ہے۔ اقوام متحدہ سے لے کر عالمی انسانی حقوق کے اداروں تک، ہر جگہ یہی پیغام دیا جا رہا ہے کہ مذہب کسی کا ذاتی معاملہ ہے اور ریاست کا فریضہ ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے۔

ایسے میں، پاکستان کی ریاست کا یہ طرزِعمل ، کہ اپنے ہی شہریوں کو ان کے عقیدے کی وجہ سے ذلیل و خوار کرے، ان کی عبادت کو جرم اور ان کے سجدوں کو گناہ قرار دے، نہ صرف انسانی شعور کے برخلاف ہے بلکہ عالمی ضمیر کے لیے بھی ایک بد نما داغ ہے۔ احمدی شہری جو پہلے ہی اپنی عبادت گاہوں کے انہدام، اپنی لاشوں کی بے حرمتی، اور اپنی مساجد و قبرستانوں کی بے توقیری دیکھ چکے ہیں، اب ایک اور امتحان میں ڈالے جا رہے ہیں۔ ان پر حلف نامے اور مچلکے تھوپ کر یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ تمہاری عبادت بھی اب ریاست کی مرضی کے تابع ہے۔ تمہاری عید، تمہاری قربانی—سب کچھ اب کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھے احکام کا مرہونِ منت ہے۔

لیکن سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ ریاست کی مشینری ہر دروازے پر جا کر یہ فارم بھروائے گی؟ ہمارے علم میں ہے کہ نہ ریاست کے پاس یہ ذرائع ہیں اور نہ ہی ایسی اہلیت۔ اور اس طرح کے ظلم کو قانونی لبادہ پہنا نافذ کرنے کے لئے جو گورننس کی اہلیت اور پولیٹکل کیپیٹل درکار ہے وہ تو ان مٹی کے مادھوؤں کو نصیب ہی نہیں ہے جو حکومت کے نام پر ریاستی مشینری کے ساتھ کھلواڑ میں لگے ہیں ۔اور پھر یہ خیال آپ کے ذہن میں کیسے آ گیا کہ احمدی ان فارموں پر دستخط کرنے کو تیار بیٹھے ہیں؟
تو اس ساری مداری کا اصل مقصد کیا ہے؟ وہ کون سے مقاصد ہیں جو آپ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کی عظمت کے سفر میں حاصل ہوں گے؟ وہ کون سا سنگ میل ہے جو آپ کو لگتا ہے کہ عبور ہو جائے گا؟ کون سی عزت اور کون سا وقار دنیا کے سامنے پیش ہو گا جب ریاست اپنے ہی شہریوں کو ان کے عقیدے کی بنا پر نشانہ بناتی پھرے گی؟

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ریاست پہلے تو اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت میں بری طرح ناکام ہو اور پھر انہی شہریوں کی عبادت کے حق کو بھی چھیننے کے درپے ہو؟ یہ عبادت گزاروں کو مجرم بنانے کا کھیل ہے، جو مذہبی جبر واستبداد کی بدترین شکل ہے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ فارم احمدیوں کو ڈرا دیں گے، تو وہ تاریخ کو بھول رہی ہے۔ احمدیوں نے ہمیشہ اپنی عبادت اور اپنے ایمان کی حفاظت کی ہے۔ یہ کمپیوٹر پر پرنٹ نکال کے جو پرچی نما مچلکہ تیار کیا گیا ہے کیا یہ آئین کی دوسری ترمیم اور ضیاء کے بدنام زمانہ آرڈیننس سے بڑی کوئی قانونی یا آئینی دستاویز ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ نہیں ۔ تو پھر یہ پرچی جو سوشل میڈیاء پر شرلی بنا کے چھوڑی ہوئی ہے یہ کیا ہے؟

یہ آپ کی گورننس کے منہ پر ملائیت کا طمانچہ ہے، اب ریاست عید والے دن اپنا گال سہلاتی رہے، مگر احمدی اپنے عقیدے پر ویسے ہی قائم ہیں جیسے اس چھچھورپنے سے پہلے تھے۔

البتہ، بقول سہیل وڑائچ کی حالیہ کتاب کے ٹائٹل کے، یہ کمپنی چل نہیں سکے گی ۔

تو جب یہ کمپنی اور فلم پوری طرح فلاپ ہو چکے گی اور دہائیوں بعد مؤرخ لکھ رہا ہو گا کہ نظام برباد کیسے ہوا تو آپ کے اس طرح کے نیک چلنی کے مچلکوں کو دیکھ کر سر پیٹے گا اور آپ پر لعنتیں ڈالے گا کہ اس طرح ملک چلا رہے تھے آپ ۔

باقی جن احمدیوں نے پاکستان میں احمدیت نہیں چھوڑی ان کے سجدے چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،کیا آپ نے کبھی کسی خدا کے فرستادے اور اس کے ماننے

والوں کو نیست و نابود ہوتے ہوئے دیکھا ہے، البتہ تاریخ ان کے دشمنوں اور بربادی چاہنے والوں کے واقعات سے بھری پڑی ہے
اور آپ نے بڑی بڑی سلطنتوں کے ملبے پر اگنے والی گھاس کو ضرور دیکھا ہو گا۔ تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں ان حاکموں کی کہانیوں سے جو ظلم کی بنیاد پر اپنے اقتدار کی عمارتیں کھڑی کرتے رہے اور ایک دن وقت کے دریا نے انہیں خس و خاشاک کی طرح بہا دیا۔
یاد رکھیے، اللہ کی رسی دراز ضرور ہے، لیکن ایک دن وہ کھینچ لی جاتی ہے۔ اور جب کھینچ لی جاتی ہے تو پھر ظالم کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں بچتی۔
آپ کے یہ کاغذی ہتھکنڈے، آپ کی یہ سازشیں، یہ سب آپ کے اپنے زوال کا اعلان ہیں۔
اور ظلم کے ایوان میں جب انصاف کی آندھی چلتی ہے تو پھر کوئی مورخ نہیں، خود وقت گواہی دیتا ہے کہ ظالم کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوتا ہے۔
یاد رکھیے، عبادت گزار کو مجرم ٹھہرانے والا خود مجرم ٹھہرتا ہے۔ اور رب کے دربار میں مظلوم کے آنسو کبھی رائیگاں نہیں جاتے۔