آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

آئین کے وجود پر غیر آئینی جذام، از مونا فاروق، امریکہ

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

ہر ملک کا آئین اپنے وقت کی سیاسی، معاشرتی اور تاریخی ضروریات کے پس منظر میں تشکیل پاتا ہے۔ یہ صرف قانونی دستاویز نہیں بلکہ ایک سماجی معاہدہ ہوتا ہے جو شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا اور ریاست کے اداروں کے کردار کی حد بندی کرتا ہے۔ پاکستان کا آئین بھی اسی حقیقت کا غماز ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس آئین میں بعض تضادات اور متصادم شقیں ابھر کر سامنے آئیں، جو معاشرتی مکالمے اور انسانی حقوق کی ضمانت کے حوالے سے نہایت اہم سوالات پیدا کرتی ہیں۔

پاکستان کے آئین میں اسلامی دفعات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ آرٹیکل 227 کے تحت قانون سازی کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کی شرط عائد کی گئی، جب کہ دوسری جانب آئین میں شہریوں کے بنیادی حقوق بھی درج ہیں۔ یہی مقام ہے جہاں ایک واضح کشمکش محسوس ہوتی ہے۔ مذہبی دفعات بعض اوقات شہری آزادیوں کے آفاقی اصولوں سے ٹکرا جاتی ہیں۔ مثلاً احمدیوں کی آئینی حیثیت یا توہینِ مذہب کے قوانین، جو انسانی وقار اور مذہبی آزادی کے عالمی معیارات سے متصادم ہیں۔ اسی طرح حدود قوانین میں سزاؤں کی شدت اور بعض اوقات خواتین کی حیثیت کو محدود کرنے کی فقہی تشریحات ایک ایسی بحث کو جنم دیتی ہیں جو محض قانونی یا مذہبی نہیں بلکہ انسانی اقدار سے جڑی ہوئی ہے۔

یہ سوال یہاں جنم لیتا ہے کہ کیا اسلام بذاتِ خود انسانی حقوق کو محدود کرنے والا مذہب ہے یا یہ تضادات محض اس کی تاریخی تشریحات کا نتیجہ ہیں؟ اسلامی تعلیمات میں انسانیت کی عظمت اور عدل کی آفاقی روح بنیادی اصول ہیں۔ قرآن مجید کہتا ہے: ’’وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ‘‘ — ہم نے اولادِ آدم کو عزت بخشی۔ ( سورہ بنی اسرائیل آیت 71) مذہبی آزادی کا اعلان بھی اسی کتاب میں ملتا ہے: ’’لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ‘‘ — دین میں کوئی جبر نہیں۔ ( سورہ بقرہ آیت 257) کے باوجود جب ان تعلیمات کو مخصوص سماجی یا سیاسی سیاق و سباق میں جامد فقہی تشریحات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے، تو وہ انسانی حقوق کے جدید معیارات سے متصادم ہو جاتی ہیں۔

یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں نے آئین سازی میں مذہب کی مرکزی حیثیت کو کم کر کے انسانی حقوق کی ضمانت کو اولیت دی ہے۔ امریکہ میں آئین ریاست اور مذہب کے درمیان واضح دیوار کھینچتا ہے، جس سے شہریوں کو مذہبی وابستگی سے ماورا بنیادی حقوق میسر آتے ہیں۔ بھارت کا آئین بھی مذہبی آزادی کی بات کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تمام شہریوں کے لیے مساوات اور انسانی وقار کے تحفظ کو اولین حیثیت دیتا ہے۔ یہ مثالیں اس بات کی علامت ہیں کہ مذہب کے احترام کے باوجود قانون سازی کا اصل مقصد انسانی شرف اور وقار کا تحفظ ہونا چاہیے۔

نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کچھ اصول — جیسے انسانی وقار، انصاف، آزادی اور مساوات — آفاقی ہیں۔ ان اصولوں کو کسی بھی مذہب یا ثقافت کے نام پر محدود کرنا دراصل انسانیت کی توہین ہے۔ معاشرتی انصاف کے قیام کے لیے ہمیں مذہب کو بیساکھی کے طور پر استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں ایک ایسے معاشرتی معاہدے کی ضرورت ہے جو ہر فرد کو اس کے عقیدے یا سماجی پس منظر سے قطع نظر انصاف کی ضمانت دے۔ اس سفر میں مذہب کا کردار ذاتی اخلاق اور روحانی تربیت کی حد تک تو ضرور اہم ہے، لیکن ریاستی قانون سازی میں انصاف کو مذہب کے نام پر محدود کرنا ایک مہذب معاشرے کے تصور سے متصادم ہے۔

ہمیں ایک ایسے پاکستان کی طرف بڑھنا ہے جہاں مذہب کی روحانیت انسان کی انفرادی شناخت کو نکھارے، لیکن ریاست کا نظام انصاف اور انسانی وقار کو ہر حال میں مقدم رکھے۔ یہی وہ اصول ہیں جو تاریخ کے کسی بھی دور میں قابلِ قدر رہے ہیں اور رہیں گے۔