آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

بنگش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ، از طاہر احمد بھٹی

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

عالیشعا ر بنگش ہمارے نوے کی دہائی کے قریبی دوستوں میں سے ہیں اور ریڈیو کے ساتھ فلرٹ کرتے رہے مگر لکھنے کے ساتھ لانگ ٹرم ریلیشن میں تھے اور ہیں۔ اسی لئے کسی ٹی وی چینل کے اینکر کی بجائے ایک تشہیری کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں۔
احباب ان کو مس کر رہے ہوں اور کہیں مدعو کرنا ہو تو مشہور غزل کے مصرعہ اولی میں ترمیم اور تحریف کر کے کہتے ہیں کہ،
بنگش ہی سہی، دل ہی دکھانے کے لئے آ
خود حساس طبع واقع ہوئے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ فکری دیانت کو سینت سینت کر رکھتے ہیں اس لئے تیس سالہ سر توڑ قلم کی مشقت کے باوجود سیکنڈ ہینڈ سوزوکی مہران اور ٹیکسلا کی آبائی رہائش سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
بسلسلہِ روزگار ہفتے کے ساتوں دن اسلام آباد آتے ہیں مگر اسلام آباد نے ان کے مزاج کی وجہ سے انہیں زیرو پوائینٹ پر رکھا ہوا ہے۔
زیرو پوائنٹ سے پلس کی طرف شہرِ اقتدار نے جانے نہیں دیا اور مائنس کی طرف انہوں نے جانا پسند نہیں کیا۔
اس لئے جب جب ان سے بات ہوتی ہے تو آغاز و اختتام ان سطور پر ہوتا ہے، آپ بھی سنئیے،
جہاں سے تم موڑ مڑ گئے تھے وہ موڑ اب بھی وہیں پڑے ہیں
ہم اپنے پیروں میں جانے کتنے بھنور لپیٹے ہوئے کھڑے ہیں
کل انہوں نے قلم برداشتہ ایک روئیداد سوشل میڈیاء پر شئیر کی کہ وہ اپنی ایک کولیگ کو ڈراپ دینے گئے۔ موصوفہ نے ان کو چائے کے ساتھ سینڈوچ پیش کیا اور یہ آدھا سینڈوچ کھا کے باقی آدھا لپیٹ کے واپس پنڈی صدر کے قریب پہنچنے والے تھے تو ایک نوجوان کو لفٹ دی جو بس اڈے کی طرف اس لئے پیدل جا رہا تھا کہ اس کے پاس ڈیڑھ سو روپے تھے جو اس کی منزل مقصود تک پوار پورا کرایہ تھا۔
بنگش نے وہ سینڈوچ اسے دیا تو آدھے میں سے آدھا کھا کر کہنے لگا کہ،
یہ آدھا میں اپنی بیٹی کے لئے رکھ لوں؟
اس کے بعد عالیشعار بنگش کا بند ٹوٹ گیا اور اس کے دل و دماغ پر بجٹ کے ہتھوڑے بجنے لگے، جو اسی دن پاس ہوا تھا اور حلق میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی تنخواہوں میں تیرہ لاکھ کا اضافہ اٹک گیا۔
اب کچھ دن کے لئے بنگش عملاً رنجش بن چکا ہے