آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

ہم نئے نئے آئے تھے

سوشل میڈیا پر شئیر کریں


انسان اپنی زندگی میں ہر عمر  میں کچھ نہ کچھ نیا سیکھتا ہے  بسا اوقات نئی چیزپہلی دفعہ استعمال کرتے وقت علم اور تجربے کی کمی سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں ایسی غلطیاں بعد میں دلچسپ یادیں بن جاتی ہیں-  اس مضمون کا مقصد ایسی یادیں لکھ کر دوسروں کو بھی اپنی دلچسپ باتوں میں شریک کرنے کی دعوت دینا ہے – خود اپنے سے شروع کرتی ہوں میرا پہلا  سمندر پار کا سفر کراچی سے لندن تک کا تھا -بہت سی نئی چیزوں سے واسطہ  پڑنا تھا جس کے لۓ مجھے مسلسل تیار کیا جارہا تھا کراچی جدید شہر ہے مگر بہت سی نئی ایجادات وہاں ابھی  متعارف نہیں ہوئی تھیں صدر کے ایک شاپنگ مال میں برقی سیڑھیاں لگیں تو بہت شہرت ہوئی جو دیکھ کر آتا دنیا کے آٹھویں عجوبے کی طرح بات کرتا۔ ایک دن  ہم سب مل کر پاکستان کی ترقی کی علامت دیکھنے گۓ   مسلسل ہدایات دی جا رہی تھیں کہ کیسے پہلا پاؤں رکھنا ہے اوراوپر جا کر جونہی سیڑھیاں برابر ہوں کیسے احتیاط سے  قدم رکھنا ہے ہم نے ساری ہدایات پر عمل کیا اور  خیریت سے چڑھ کے سلامت اتر گۓ تو اتنی خوشی ہوئی کہ نعرہ تکبیر  مارتے مارتے رہ گۓ اپنی ذہانت پراعتماد میں اضافہ ہوا-جدیدیت  سے سارا خوف ختم ہو گیا پتہ نہیں لوگ گھبراتے کیوں ہیں سب کچھ آسان ہی ہوتا ہے اس تجربے کے بعد  لندن جانا بالکل مشکل نہ رہا- مگر ذہانت کا امتحان جہاز میں داخل ہوتے ہی شروع ہوگیا ہر چیز نئی لگ رہی تھی یہ ظاہر نہیں ہونے دینا تھا میں  کیا کچھ نہیں جانتی بظاہر نظر بچا کے دائیں بائیں دیکھ کے بہت کچھ سیکھا واش روم کا دروازہ کیسے کھولنا ہے اگلی نشست  کی پشت پہ نصب   ٹی وی کیسے آن کرنا ہے وغیرہ وغیرہ ادھر ادھر دیکھا تو کئی لوگ اسی قسم کی کشمکش میں مبتلا نظر آۓ سب پہلی پہلی دفعہ سفر کرنے والے  کن اکھیوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی رہے تھے  – لندن میں بہت سی چیزیں نئی تھیں مگر سب سے زیادہ مشکل نلکے کھولنے بند کرنے میں پڑی کوئی نلکا دائیں بائیں گھمانے سے کوئی اوپر نیچے کرنے سے کوئی بٹن سا دبا کر کھلتا تھا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اپنا چھوٹا سا دماغ ہر وقت استعمال کرنا پڑتا تھا -اسی طرح دروازے کھولنے کا طریق بھی جدا جدا تھا ایک دفعہ تو واش روم میں بند ہوتے ہوتے بچی قسمت نے ساتھ دیا اور ہاتھ کچھ ایسا گھوما کہ دروازہ کھل گیا-اس طرح کی کئی حماقتیں ہوئیں اب سب کچھ تونہیں بتاؤںگی کچھ دوسروں کے تجربات کا ذکر ہوجاۓ  ایک سہیلی نے بتایا کہ اس نے پبلک  ریسٹ ایریا میں ہاتھ دھوۓ پھر گرم ہوا کے نلکے کے آگے سکھاۓ مگر نلکا بند کرنا نہیں آیا تو   بہت دن یہ غم رہا کی ابھی تک وہاں سے گرم ہوا نکل رہی ہوگی-خود کار کیمرے نے میری تصویر بھی لے لی ہوگی کوئی مشکل نہ آجائے – ایک صاحب نےسٹور میں داخل ہوتےوقت دیکھا کہ  داخلی دروازے پرایک  گھومنے والی چرخی لگی ہے جس میں ایک طرف سے داخل ہوتے ہیں اور دوسری طرف  سے نکل جاتے ہیں یہ نیا تو تھا مشکل نہیں تھا وہ بھی داخل ہو گۓ اور چرخی میں بہت دیر اس انتظار میں گھومتے رہے کہ وہ رکے تو نکلیں – پھرجب کوئی اور آیا اور نکل گیا تو سمجھ آیا کہ چرخی رکے گی نہیں خود ہی نکلنا ہوگا-شکر ہے کوئی آگیا نہیں تو پتہ نہیں کب تک بچارے کو کولھو کے بیل کی طرح گھومنا پڑتا-  ایک خاتون نے بتایا کہ نئے ملک کے سکوں سے واقف ہونے میں بڑی دیر لگی ایک دن سکول سے آکر بچے نے ڈائم کا مطلب پوچھا توپہلے تو وہ سمجھی کہ ٹائم کو ڈائم کہہ رہا ہے  مگر پھرجب بچے سے چھپ کرگوگل کیا  توسمجھ آئی کہ ڈائم کیا ہوتا ہے-لندن کی ایک خاتون نے یہ کمال کیا کہ سڑک کے کنارے رکھے ہوۓ اخبار اٹھانے لگی کی گھر جاکر الماریوں میں بچھاؤں گی- میاں بیچ میں آگۓ  اور’ پیار’ سے سمجھایا کہ یہاں اسی طرح اخبار بیچے جاتے ہیں اٹھانا نہیں  لوگ پیسے رکھتے ہیں اخبار لے جاتے ہیں -ایک خاتون بس میں بیٹھ کر انتظار میں رہی کہ ٹکٹ دینے والا آۓ گا- ایک  سہیلی کو ڈاکٹرکے کلینک میں اپنی باری کے نمبر کی پرچی مشین سے کھینچنے سے کبھی واسطہ نہ پڑا تھا بہت دیر کے بعد سمجھ آئی کہ اس کی باری کیوں نہیں آرہی –  ایک بچی شادی کے بعد پہلی دفعہ  ملک سے باہر آئی تھی  جب اپنے ٹا ؤن میں داخل ہوۓ تو میاں نے دکھا یا کہ دیکھواس بورڈ سے جہاں لکھا ہے پاپولیشن  پندرہ ہزار ہمارا ٹاؤن شروع ہوتا ہے – نئی دلہن بہت عرصہ انتظار کرتی رہی کہ وہ پاپولیشن کے نمبر  میں ایک عدد کا اضافہ کریں گے—دیکھۓ یہ موضوع کتنا دلچسپ ہے یقینا آپ کے ساتھ بھی بہت کچھ پیش آیا ہوگا دوسروں کو بھی اپنے تجربات میں شامل کیجئے لکھنا شروع کیجۓ ہم نۓ نۓ آۓ تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امۃ الباری ناصر