آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

اسلامو فاشزم بمقابلہ اسلاموفوبیا

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

“اسلامو فوبیا “اور”غیر اسلامی اسلامو فاشزم”

محمد کولمبس خاں، ایڈوکیٹ

فوبیا ایک اضطرابی  ذہنی کیفیت ہے جو کسی شئے یا صورتحال سے مستقل اور ضرورت سے زیادہ خوف سے پیدا ہوتی ہے۔متاثرہ افراد صورتحال سے بچنے کے لئے سب کچھ کر جانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔  یہ انفرادی ہو تو فرد کے لئے زندگی اجیرن کر دیتا ہے اور اگر یہ سماج   یا معاشرے کے ایک گروہ کو اپنی لپیٹ میں لے لے  اور اس کا وقت پر تدارک نہ کیا جا ئے تو اس کے نتائج نہایت  سنگین ہوتے ہیں ۔ چند صدیاں قبل  روئے زمین پر ایک ضابطہ  سیاست  غالب تھا کہ جو طاقتور ہیں انہیں اختیارِ حکومت حاصل تھا  اور باقی رعایا اس  کی اطاعت پر صابر شاکر ہو جاتی تھی۔ ہندوؤں میں ذات پات کی تقسیم نے اس  معاملے  کا حل  تناسخ کے ا عتقاد  میں   رکھ دیا تھا  جس کے نتیجہ میں معاشرے کی بُنت کا شکنجہ   خوف کے بجائے  کافی حد تک  سکینت کا باعث رہا۔ سامی مذاہب کی تعلیمات میں چونکہ تناسخ کی گنجائش نہیں تھی اور دائمی  زندگی کی      تمنا بھی    انسان میں موجود  رہتی ہے  اس لئے موت کے بعد اِسی دنیا سے ملتی جلتی حیاتِ جاوداں   جس کا انحصار اِس دنیا میں     کئے گئے اعمال   پر  ہو،اس کا تصور  کرکے   اس دنیا میں بھی عدل و انصاف کے نفاذ  کو انسان کےاجتماعی مقاصد   کی معراج  قرار دے لیا گیا۔ جوں جوں روشن خیالی میں ترقی ہوئی اور انسان کی مادی فلاح کی حفاظت کا شعور ترقی پذیر ہوا  تو     گروہی اور نسلی حفاظت  کے لئے   بالادست گروہوں نے ایسی  تدابیر اختیار کرنا شروع کر دیں جو دوسرے گروہوں  کے مفادات سے  تصادم کی صورت میں   انہیں کسی نہ کسی رنگ میں  قانونی  جواز فراہم کرتی تھیں۔ پھر    جو حقِ بالا دستی  بہت حد تک   مذہبی ایمان  کی بنیاد پر تھا    رفتہ رفتہ نسلی   اور قومی بنیادپر منتقل ہونے لگا۔یہودی عیسائی اور مسلمان   حیات بعد از ممات کا عقیدہ کم و بیش ایک جیسا  تو  رکھتے تھے  لیکن یہودی  عقیدہ کے ساتھ  اپنی نسل کو بھی  شامل رکھتے   جو اِن کے کمزوری کے دور میں  دوسروں کی نگاہ میں تو محض   واہمہ  ہی سمجھا جاتا تھا  ۔    وقت کے ساتھ ساتھ   ان پرسختیوں کے نتیجہ میں  ان کےدفاعی میکانزم نےانکی ذہنی صلاحیتوں میں  اضافہ کردیا۔ جس سے  رفتہ رفتہ انہوں نے روشن خیالی کی  طرف گامزن مغربی معاشرہ  پر اپنی گرفت قائم کر لی تاکہ گزشتہ زمانوں میں  ان پر کئے گئے مظالم  دہرانے کی نوبت   آنے ہی نہ پائے۔  گزشتہ چند  صدیوں سے  یہود و نصاریٰ میں جہاں  مفادات کی  ایک ہم آہنگی  پائی جاتی ہے وہیں ایک تاریخی عداوت کا  عنصر بھی اپنا جوہر دکھاتا  رہتا ہے۔تحریک احیائے علوم کے بعد    انیسویں صدی تک  یہود و نصاریٰ کے باہمی تعاون   کے نتیجہ میں خطۂ  زمین   کے بڑے حصّہ  پر تسلط کے سمجھوتے تقریباً  طے پا گئے تھے  اورمغرب میں  یہودی تسلط  کے تصّور سے سفید عیسائی تعصّب   نے جنم لیا   جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔   امریکہ میں  اسی قسم کے تعصّب کا نشانہ ایفرو امریکن  بنے۔ دوسری جانب جن ممالک میں  قبل ازیں اسلامی تسلط تھا ان میں دیگر مذاہب کے لوگ بطورذمی  اپنے ماتحتانہ   رول پر  مجبوراً مطمئن تھے  ۔اور جب یورپین قومیں پیشقدمی کرنے لگیں تو  اسلامی ممالک میں  مقیم ذمیوں میں بھی برابری کا احساس جنم لینے لگا۔    رفتہ رفتہ سازشیں اور ریشہ دوانیاں    بھی ایک  فنی  مرتبہ اختیار کر گئیں۔

  مسلمان جن سے عیسائی صلیبی جنگوں کے دوران ہزیمت اٹھا چکے تھے  معلومہ کمزوریوں کی بدولت زوال پذیر ہوتے گئے  اور ان کے اندر  گروہی  زندگی کی بقا ءکے  جذبہ  کے تحت سیاسی جدوجہد  کا آغاز ہوا۔   پین اسلامزم ، پین عربزم   کے ساتھ ساتھ ترکی ،ہندوستان میں آزادی کی تحریکات  وغیرہ  کی صورت میں اسی  بات  کا اظہار  ہے۔ یہود و نصاریٰ کی باہمی عداوت  جو جنگِ عظیم دوم پر منتج ہوئی اس میں  بڑی حد تک یہی گروہی خوف اور تعصّب کارفرما تھا ۔ “سیاسی قوتیں   اپنے مقصد کی بار آوری  کے لئے مذہب کے استعمال کو معیوب نہیں سمجھتیں”۔   اس معاملہ  میں مشرق و مغرب ایک  ہی نہج  پر ہیں۔   جب  جرمنی میں ایک ملحد  نازی پارٹی نےیہودیوں کے نسلی برتری کے  بالمقابل  جرمنوں کو اپنی نسلی برتری کا احساس دلایا  تو  نازیوں  نے بھی  مادی ترقی  کے لئے عیسائی  مذہبی جذبہ کی قوت کا استحصال کیا۔ جس کے نتیجہ میں یہودیوں میں  عدم تحفظ کا احساس مزید   بڑھا ۔ ایک  یہودی نے جرمن سفیر کو پیرس میں گولی مار کر ہلاک کردیا   جس سے   پورے جرمنی میں یہودیوں کے خلاف حکومتی نگرانی میں  ہولوکوسٹ کا   ایک گولا پھٹا  اور مظاہرین کے ہاتھوں سینکڑوں  یہودی  مارے گئے، بے شمار معابد  اور املاک نظر آتش کر دی گئیں۔  جواباً پولینڈ میں یہودیوں کے علاقہ میں  مقیم جرمن زیر عتاب آگئے اور اس پر جرمنی کی  اپنی ریاستی رٹ کو قائم کرنے کے لئے نازی حکومت نے پولینڈ پر حملہ کر دیا ۔   دما دم مست قلندر والی یہ بات تاریخی لحاظ سے ابھی  کل کی بات ہے۔ 

اس   ذکر سے واقعات پر” گروہی خوف اور عداوتوں کے اثرات کی شدّت”  کا خاکہ پیش کرنا مقصود تھا۔    اس  چھوٹے سے کرۂ ارضی پر مختلف پس منظر کے گروہوں پر مشتمل  اربوں انسانوں کا  آپس میں امن و امان سے رہنا   یا رکھنا مشترکہ ، قابلِ قبول ،  قابلِ عمل  قواعد و ضوابط  کا متقاضی  ہے اور آج  “سچی جھوٹی  سازشوں  کے خوف کی بناء پر گروہی  تعصبات  کی پرورش “کی وجہ سے    مدبّرین کے لئے یہی  سب سے بڑا مسئلہ ہے۔  مسلمانوں کے دینی رہنما معمولی استثناء کے ساتھ اسلام کو کامل ضابطہ حیات سمجھتے ہوئے تما م بنی نوع انسان کو مبیّنہ طور پر  بھلائی کے  جذبہ کے تحت ، پیار محبت یا تلوار کے ذریعہ اسلام کے   جھنڈے تلے لانا   اپنا فرضِ  اوّلین سمجھتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ   ان کے الفاظ اور اعمال ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیتے اور دنیا ان کے اِس  نیک جذبہ سے  بوجوہ  خوفزدہ ہے۔

اسی خوفزدگی کا  دوسرا نام  اسلامو فوبیا ہے۔ توہین آمیز کارٹونز کی اشاعت تو  درحقیقت  اِسی بیماری کی ظاہری علامتوں میں سے ہے۔ بیماری  کی   ظاہری علامتوں کے جواب میں مسلمانوں میں  ایک  طبقہ  “اہل تلوار”  دینی رہنماؤں کا ہے جن کا   پُر تشدّد ردِ عمل  بار بار  ان علامتوں کی پیچھے بیماری   اسلاموفوبیا  کو تصدیق  مہیّا کرتا    ہے  اور یوں   عداوت کی  یہ خلیج وسیع  ترہوتی جارہی ہے۔  مسلمانوں کا  ایک   طبقہ   اس کا” علمی اور اخلاقی حل” چاہتا  اور پیش کرتا ہے اس طبقہ کا   طرزِ رد عمل  “تلوار طبقہ ” اور ان سے منسلک  زخمی مسلمانوں کی اکثریت کو  ”  بزدلی ،بے غیرتی  اور معذرت خواہانہ”  دکھائی دیتا ہے۔یہ  صورتحال  ہے جس سے آج  مسلم  معاشرہ یا ممالک  اور خاص طور پر پاکستان کی ریاست کو سامنا ہے۔۔”  اہلِ تلوار”  دینی رہنماؤں کے طریقہ کار اوراس کے نتائج   پچھلے کم از کم سو سال کے ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں جن  کا جائزہ لینے  سے معلوم ہوتا ہے کہ:

۔1۔ ان کا  دُنیوی علم تو صفر ہے اور یہ طبقہ  اپنے زیر تربیت بچوں کو سائینسی علوم سے نفرت اور جنوں  پریوں کے قصّوں  اور ماضی کے اصلی اور فرضی معرکوں کے تذکرہ   سنا کر   نرگسی مسرّت    کے نشے  سے چُور  رہتاہے۔ان کا دینی علم بھی  توہمات  اور خودساختہ نظریات پر مبنی ہے جس کی کسی طور قرانی تعلیم سے ہم آہنگی نہیں ہے اس کے ثبوت کے طور پر روشن خیال  مکالمہ پسند علمائے اسلام کا  بیانیہ ہے جو   انٹرنیٹ پر  بکثرت موجود ہے ۔ ایسے علماء   اکثر صورتوں میں ” اہل تلوار” کی  دہشت گردی کے نشانہ پر رہتے ہیں۔

۔2۔ ان  “اہلِ تلوار” کا دعویٰ امت کی رہنمائی کا  بالکل  بے بنیاد  ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔ ان کےگزشتہ  صدی سے لے کر  اب تک  تمام سیاسی خیالات کو وقت نے غلط ثابت کر دیا ہے۔ انہوں نے تصویر کی حرمت ۔ عورت کی حکومت کی حرمت ۔ پینٹ کوٹ پہننے کی حرمت۔ جمہوری نظام کی حرمت وغیرہ   جیسے فتاویٰ سے نواز کر    اُمت کی گاڑی کا  ایک ٹائر    ہمیشہ کچے پر  رکھا ہے  اور ان کی  پیروی کرنے والے  مسلمانوں کو    ہر بار  ہزیمت ہی اٹھانی پڑی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے وہ اس”  ہزیمت بر بنائے حماقت ” کو بھی قابلِ فخر سمجھتے ہیں ۔ 

۔3۔ ان کا پوری امت کو ایک ہاتھ پر “تلوار کے زور پر یکجا کرنے کا اِدّعا  “خود مسلمانوں کے لئے بھی  بڑے  خوف و اضطراب کا باعث ہے۔ یہ   کوئی فرضی بات نہیں ۔  مثلاً مولانا مودودی صاحب نے جو پاکستان مخالف تھے اپنی رائے بدلنے کے بعد  پاکستان آگئے لیکن اپنے  “اشاعت اسلام  بذریعہ تلوار “کے نظریئے پر آخری دم تک قائم رہے۔ جن کے نزدیک انسانی اخلاق کی  اصلاح صرف تلوار کے ذریعہ ہی کی جاسکتی ہے۔ (ان کے ان خیالات کا جواب “مذہب کے نام پر خون ” کتاب میں تفصیل کے ساتھ دیا گیا ہے ۔ یہ کتاب دلچسپی رکھنے والوں کی خدمت میں  آن لائین موجود ہے)

۔4۔ مسلمان سیاستدان  انگریزوں کے عہد کی  غلامی میں   “تلوار طبقہ”  مذہبی رہنماؤں سے مرعوب نہیں  ہوتے تھےلیکن آزادی کے بعد     جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے  “سیاسی قوتیں   اپنے مقصد کی بار آوری  کے لئے مذہب کے استعمال     کو معیوب نہیں سمجھتیں   ”    اس  ابن الوقتی کی   بدولت ،  اِس  نیم تعلیم یافتہ  دینی طبقہ      (جو اپنی گفتگو کو ثقاہت فراہم کرنے کے لئے اکثر اپنے وعظوں میں انگریزی الفاظ کو استعمال کر کے انگریزی  زبان کی عزت افزائی فرماتے  رہتے ہیں)  کا غیر تعلیم یافتہ طبقہ پر جو اثر ہوتا ہے، اس سے استفادہ میں     کھوٹا   سیاستدان    کراہت محسوس نہ کرنے کی وجہ سے   منافقت کے شکنجے میں جکڑا  چلا جاتا ہے  ۔   وقتی طور پر یہ  ڈنگ ٹپاؤ   حکمت عملی سے    چند دن   سانس تولے سکتا ہے لیکن نتیجۃً  ملک و قوم  کو  جہلا ء کا   یرغمال بنا جاتا ہے۔

۔5۔  ان یرغمالیوں پر “تلوار ی طبقہ” کی گرفت سخت  تر ہو تی  جاتی ہے اور اس   کے نتیجہ میں    مادی/مالی  فوائد  کا حصول، (ان کے گمان میں)  انکی  نظریاتی صداقت کا   ثبوت بنتا جاتا ہے ۔   اگلے مرحلہ پر   انکے   خیالی دین کے استحکام اور انکی    ہی تشریح کو ساری دنیا   سےتسلیم کر وانا    اور      ملحدین  ہی سے   تلوار لے کر ان کا گلہ کاٹنا ۔ان کامطمع نظر ٹھہرتا ہے۔ 

۔6۔ ان کا “طریقہ واردات” در حقیقت   جدید  صیہونی ، کمیونسٹ   اور  اٹلی جرمنی کی فاشسٹ تحریکات   اور آجکل  کے نیو نازیوں سے    ملتا    جلتا ہوتا ہےاور اپنے زعم میں نیک مقاصد کے حصول کے لئے بد ترین ہتھکنڈوں کے استعمال سے دریغ نہیں کیا جاتا  جس   کے لئے  “رہبر کی قائدیّت    کا تقدس “قائم  کرکے عوام کی گردن پر      معتقدانہ اطاعت کا   جوأ  پہنا دیا   جاتا ہے ۔  انتہائی گھناؤنا  اور قبیح  ظلم یہ ہے کہ اس  منحوس طریقہ واردات  کو اسوہ ٔنبوی ﷺ   کی پیروی کا  نام دے  کر سادہ لوح مسلمانوں کو بے وقوف بنا  یا جاتا ہے۔

۔7۔عام  مسلمان    بھی اس مخمصے کا شکار ہیں کہ ظاہر میں  اتنے دیندار نظر آنے   والے بزرگ جو” بعد از مرگ   حالات “سے بھی  آگاہی رکھتے ہیں وہ اتنے غلط بھی تو نہیں ہو سکتے کہ ان کو نظر انداز کیا جا سکے۔  اس پر مستزاد یہ کہ نکاح جنازہ پر بھی  انکی مکمل  اجارہ داری   قائم ہے۔ غرض؛

ـ؎  کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کا یہ حال

نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا

 پاکستان کے حوالے سے  ان حالات میں ایک طرف   تو  دنیا  میں  اسلاموفوبیا  کا پایا جانا سب پر واضح ہے  ،   دوسری طرف بد قسمتی سے  اس کو ختم کرنے کے لئے عمرانی حکمت عملی  ایک واہمہ سے بڑھ کر اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ جب  آپ بطور ریاست  خود اس” غیر اسلامی اسلامو فاشزم “کے  مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے اور  آپ دوسری دنیا کو “تلواری طبقہ “کے شر سے بچنے کے لئے کوئی ڈھال  فراہم نہیں کر سکتےتو  باقی دنیا کو اِس ” غیر اسلامی اسلاموفاشزم “سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے  کے لئے خود ہی   کچھ نہ کچھ   کرنا ہوگا-

اپریل 2021 کی 29 تاریخ کو یورپین پارلیمنٹ میں پاس ہونے والی قرارداد میں بحث کے دوران جو واقعات  بیان کئے گئے ہیں وہ از خود  گھڑے نہیں گئے تھے بلکہ میڈیا میں اور عدالتوں میں ریکارڈ پر موجود  ہیں جن کی   تصدیق  دو ہفتہ پہلے کے  ہونے والے سانحات   بھی کرتے ہیں۔ انتہائی   دکھ کی بات  یہ ہے کہ   اس دوران قتل   ہونے والے ملازمین کو حکومت  بھی “اپنے شہید ” ماننے کے لئے تیار   نہیں  ہے حالانکہ   حضرت نبی کریم ﷺ کے ارشادت کی رُو سے وہ  شہید ہیں جو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران قتل  کئے گئے ۔

یہ “تلواری طبقہ” کسی ڈیڈ لائین کو تسلیم نہیں کرتا اور دیگر بظاہر”  نرم خُو ” کہلانے والے مذہبی رہنما بھی  اپنے مفادات کی خاطر ان سے ہم آہنگی کا مظاہرہ کر کے ثابت کر چکے ہیں کہ   گاڑی کےاب دو پہئے کچے پر اتر چکے ہیں۔