میک اَپ ضرور کیجئے … مگر!
اللہ تعالیٰ خوب صورت ہے اور خوب صورتی کو پسند فرماتا ہے۔ اس کی ہر تخلیق حسین ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہے
؎ ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرفجس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا
غالب کا عارفانہ شعر ہے :
؎ آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوزپیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
بناؤ سنگار ،تزئین و آرائشِ ،بنا سنورنا ،آراستگی ،میک اَپ وغیرہ انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ خاص طور پر صنفِ نازک کا حق ہے ۔ میک اپ ضرور کیجئے … مگر یہ سوچ کر کہ آپ کو عمر کی مناسبت سے کیسا میک اَپ کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔ ہم نے اپنی بزرگ خواتین کے مُنہ سے یہ جملہ کئی مرتبہ سُنا تھا’’کیسا زمانہ آ گیا ہے بیاہی اور بن بیاہی میں تمیز ہی باقی نہیں رہی جس کو دیکھو سُرخی پاؤڈر تھوپا ہے۔‘‘
ہم بزرگوں کا یہ اعتراض سن کر دل میں سوچتے تھے یہ بھی اپنے وقتوں میں ہر میسر سامان ِآ رائش استعمال کرتی ہوں گی مگر ہم کریں تو پسند نہیں آتا۔ اور اب ہم بالکل اُسی انداز میں آجکل کی بچیوں کے بارے میں کہتے ہیں :’’آ نکھوں پررنگ برنگے شیڈز لگا کے ،بال رنگ کے ،مصنوعی پلکوں اور ناخنوں کے ساتھ حلیہ بگاڑ لیا ہے ۔‘‘
یہ سلسلہ وقت کی رفتار کے ساتھ آگے چلتا رہتا ہے۔ فیشن بدلتے رہتے ہیں۔ آج کی نئی نسلیں کل بڑی ہوکر اسی انداز میں نئے فیشنوں کو دیکھ کر ماتھے پر بل ڈالیں گی ۔ ہر نسل اپنے زمانے میں جیتی ہے ۔ بدلتے انداز ‘بدلتے فیشن ،نیا پن اچھا لگتا ہے مگر سن و سال میں آگے بڑھ جانے والے تبدیلیوں کو جلدی سے قبول نہیں کرتے ۔ اور روکنا ٹوکنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ تاہم ایک بات پر سب کا اتفاق ہے کہ لباس اور میک اپ عمر کی مناسبت سے ہی سجتا ہے ۔
چھوٹی عمر کی بچیاں تو اتنی پیاری ہوتی ہیں کہ میک اپ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ۔اور کرنا بھی نہیں چاہئے کیونکہ کیمیکلز سے نازک جلد کو نقصان پہنچتا ہے۔طالب علمی کے زمانے میں زیادہ توجہ پڑھائی کی طرف ہوتی ہے تاہم اپنی ذات کا شعور بیدار ہونے لگتا ہے اوراچھا لگنے کا شوق بڑھتا ہے۔ ہلکاسامیک اَپ موقع کی مناسبت سے اچھا لگتا ہے۔ بچیوں کی اپنے شوق پورے کرنے کی عمر ہوتی ہے۔ زمانے کے ساتھ فیشن کے انداز بدلتے ہیں۔ نیا پن اپنانے کی دوڑ بھی اسی زمانے میں ہوتی ہے۔ سہیلیوں سے پیچھے رہنا کسی طور گوارا نہیں ہوتا ۔ فطری تقاضوں کو نہ روکیں تھوڑی سی رہنمائی کردیں کافی ہے ۔ بالکل منع کرنے کی صورت میں وہ چھپ کے کریں گی جو اور بھی نا مناسب ہے ۔ شادی سے پہلے ہلکے رنگوں کا انتخاب کیجئے جبکہ شادی کے بعد گہرامیک اپ کرنا اچھا لگتا ہے ۔ اور سجنے سنورنے کی جس کھلی چھوٹ کا انتظار ہو رہا ہوتا ہے وہ یہی زمانہ ہے ۔پھر عمر بڑھنے کے ساتھ مزاج میں سنجیدگی آجاتی ہے۔ عمر اور موقع کی نسبت سے میک اپ گہرے سے ہلکا ہونے لگتا ہے ۔ بڑی عمر میں میک اپ کرنا ہو تو پھر ہلکا ہی زیب دیتا ہے ۔ یہ ہر ایک کے اپنے مزاج پر منحصر ہے کہ وہ کب یہ سمجھ لے کہ اب ہاتھ ہلکا رکھنا ہے۔ اسی طرح میک اَپ میں وقت کا لحاظ رکھنا بھی ضرور ی ہے ۔ صبح کی تقریب ہے یا شام کی ۔ صرف گھر کے لوگ ہوں گے یا دور کے رشتہ دار اور باہر کے لوگ بھی ہوں گے ۔ بناؤ سنگھار کا بنیادی مقصد پُرکشش ، قابلِ توجہ اور منفرد نظر آ نا ہے۔ ہمیں کس کس کے سامنے اپنی پر کشش صورت دکھانے کی اجازت ہے اور کس سے حجاب رکھنا ہے اس کے لئے بھی ہمارے پاس اسلام میں راہنمائی موجود ہے اور وہ سادہ سا اصول جو پردے کے لئے ہے کہ جن سے نکاح ہو سکتا ہے اُن سے پردہ ہے بالکل اسی طرح پُر کشش انداز میں صرف اُ ن کے سامنے جا نا مناسب ہے جن کے سامنے جانے کی قرآن ِپاک میں اجازت موجود ہے۔ بازار میں شاپنگ کے لئے جانا ہے یا ڈاکٹر سے مشورہ لینے جانا ہے تو سادگی ضروری ہے۔ بہت ممکن ہے کہ شاپنگ کرتے ہوئے اور ڈاکٹر سے معائنہ کے دوران ہم پردہ پر مناسب گرفت نہ رکھ سکیں ۔
اسی طرح گھروں میں اگر ایسے افراد کی آزادانہ آمدورفت رہتی ہے جو ہیں تو قریبی رشتہ دار اور اُن سے پردہ بھی نہیں مگر اُن کے سامنے بھی سادگی ہی محفوظ طریق ہے ۔ یقین جا نئے اگر ہم آزادانہ گھومنے پھرنے والی عورتوں کوللچائی ہوئی بھوکی نظروں سے گھورنے والوں کے خیالات پڑھ سکیں تو ایک حجاب نہیں بلکہ ستر حجابوں میں چھُپ جانے کو دل چاہے گا۔ حجاب میں نرمی کے لئے معاشرے کے پاکیزہ ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔
قرآن مجید نے جو اِلَّامَاظَھَرَ مِنْھَا کی رعایت دی ہے اس میں جو ہاتھ پاؤں قد کاٹھ وغیرہ آتے ہیں وہ مر صع نہیں ہوتے بلکہ سادے ہو تے ہیں جن کی طرف نگاہیں بلا سبب نہ اُٹھیں ۔
میک اَپ ضرور کیجئے مگر یہ بھی سوچ لیجئے کہ ہمیں کتنے وقت کے لئے میک اَپ وقتی چاہئے یا دائمی؟ سنگھار کا سامان ہمیں وقتی آ رائش دے سکتا ہے مگر ایک دائمی حسن بھی ہوتا ہے۔ کیا آپ کی کبھی ایسی شخصیت سے ملاقات ہوئی ہے جس کے چہرے پر ایک عجیب سا نورانی حُسن ہوتا ہے اتنا کہ نگاہ نہیں ٹھہرتی۔ دل کرتا ہے بس دیکھتے چلے جائیں ۔وہ حُسن کہاں سے آتا ہے؟ وہ باطن سے آتا ہے۔ ظاہری نہیں ہوتا، وہ ایسا میک اَپ ہوتا ہے جو کلینزنگ کریموں سے یا ٹیشو پیپر سے یا منہ دھونے سے نہیں اُتر تا بلکہ ہر دم نکھرتا ہے۔ یہ اخلاق کا حُسن ہے جو چہرے پر زندگی کی چمک پیدا کرتا ہے اور مثبت خیالات کا عکس ہے جو نورانی ہالہ بن جاتا ہے۔ یہ دیر پا بھی ہوتا ہے اور پُر کشش بھی۔ ہمیں دونوں طرح حسین نظر آنا ہے۔ ایک احمدی عورت کو پژ مُردہ نہیں رہنا ۔ہشاش بشاش رہنا ہے۔ باطنی حسن کا نسخہ اورسامان ہر ایک احمدی کے پاس موجود ہے۔ اس کے لئے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے ہیں۔ قرآن پاک باترجمہ اور تفسیر پڑھنی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو کم از کم تین مرتبہ پڑھنا ہے۔ خلیفۂ وقت کے ہر حکم کی تعمیل کرنی ہے۔ ذیلی تنظیموں کو کامیابی سے چلانے کے لئے اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ داعی الی اللہ بننا ہے ۔گھر کا ایسا ماحول بنانا ہے جہاں سکون ،طمانیت اور حقیقی خوشی ہو۔ مثالی احمدی خاتون کا حسن ماحول کو بابرکت بنا دیتا ہے ۔ اس کے بعد جو وقت بچ جائے ۔۔۔ میرا خیال ہے اتنی ذمہ داریوں کو محسوس کر کے ذوق اتنا بدل جائے گا کہ وقت تو کیا بچے گا ہم سوچیں گے کہ اس طرح کی کئی زندگیاں ہمیں مل جائیں تو سب راہِ خدا میں کسی ادنیٰ سے ادنیٰ خدمت میں گزار دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ آمین اللّٰھم آمین
(امتہ الباری ناصر۔امریکہ)
علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات
متعلقہ
عجیب مافوق سلسلہ تھا۔۔۔از ، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
غزل ، از ، طاہر احمد بھٹی
Are Wills really Free?