سرِ نیزہ بھی نگوں سار نہیں ہو سکتا
ٹوٹ جائے تو وہ پندار نہیں ہو سکتا
خواب ہے اور میں بیدار نہیں ہو سکتا
پر حقیقت سے بھی انکار نہیں ہو سکتا
اصل میں تم نے ابھی غم نہیں دیکھا پیارے
غم میں کوئی، کوئی بھی غمخوار نہیں ہو سکتا
یعنی کردار ہوں میں ایسی کہانی کا کوئی
جس میں میرا کوئی کردار نہیں ہو سکتا
حسن اور عشق کیا، ذہن کی اب خیر منا
جب پرستار ، پرستار نہیں ہو سکتا
دین و دنیا میں نہ کر تفرقہ پیدا زاہد
ترکِ دنیا سے تو، دیندار نہیں ہو سکتا
تم ہو غازی تو مجھے غازی نہیں ہونا پسند
تم ہو غدار، تو غدار نہیں ہو سکتا
سوچ کر ہم سفری کیجئے میری قائلؔ
میرا رستہ کبھی ہموار نہیں ہو سکتا
مدبر آسان قائل، سوئٹزر لینڈ
متعلقہ
A Lunch And The Echoes In Between by: Mona Farooq
انسانیت کی دربدری کا نام جنگ ہے، از، سعدیہ احمد، نیویارک
Is this Tip or the Iceberg itself ? By: Mona Farooq USA