پاکستان میں ایسی کیا خاص بات ہے جو دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ۔آخر کچھ تو ہے جس کی ہمیں سمجھ بھی نہیں آتی مگر ہمارا دل اس پر فدا ہونے کے لیےہر وقت مچلتارہتا ہے۔یہ ایک ایسا گنجلک رشتہ ہے جس میں گلے شکووں ،زودرنجیوں،غلط فہمیوں،بےنیازیوں اور سردمہریوں کے الجھے ہوئے رویوں کے بیچوں بیچ وفاداری اور خودسپردگی کا وہ بے اختیار جذبہ پرورش پاتا ہے جو صرف کسی عشقِ خاص سے ہی مخصوص ہے۔نہ سمجھ میں آنے والی بات تو ہے۔شہروں میں آلودگی کے ڈھیر ، کچرے کی بھرمار ، ٹریفک کا اژدھام، پریشر ہارنوں کی دلفگار آوازیں، مشٹنڈے بھکاریوں کے لشکر، کوڑے کے ڈھیروں پر سلگتے پلاسٹک کی سانسوں میں ہمہ وقت سرایت کرتی مہک،تجاوزات کا کوڑھ،ابلتے گٹر ،خوفناک پولیس، بگڑے رئیس زادوں کی خرمستیاں،مکار سرکاری اہلکاروں کی حرص و ہوس، اعلیٰ افسران کی فرعونیت، چرب زبان سیاست دانوں کی ڈھٹائی اور بے شرمی۔عدالتوں میں پیشہ ور گواہ، بازاروں میں کم ناپ تول کرنےاور بہ تقاضا ئے کاروبار صریح دروغ گوئی سے ہرگز نہ چوکنے والے تاجر ،ملاوٹ کو ہوشیاری اور جعلسازی کو عقلمندی گرداننے والے عبقری، اس کےعلاوہ قدم قدم پر ہر شعبہء زندگی میں ڈکشنریوں کو غلط ثابت کر ڈالنے والے نابغے ۔ جبکہ دیہاتوں میں دوہری مشقت کی چکی پیسنے اور کبھی خود بھی اس میں پس جانے والے کسان،ہاری یا کھیت مزدور اور کھیتی میں ان کا ہاتھ بٹاتی،گھروں میں چولہا جھونکتی،بچے جنتی،زمیندار کے گھر بیگار کاٹتی کبھی لٹتی کبھی پٹتی انکی عورتیں۔ الغرض یہ مایوسی کی دھند میں لپٹی تصویریں جتنی آپ دیکھنا چاہیں اتنی ہی سلائڈ درسلائڈ آتی چلی جائیں گی اور کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ ہم جب ان تصویروں کو لے کر بیٹھتے ہیں اپنے لِونگ روموں میں فیملی کے ساتھ، چائے خانوں میں دوستوں کے ہمراہ، کمرہ جماعت میں طلباء کے روبرو، کسی ٹاک شو میں تجزیاتی گرما گرمی کے ہنگام تو ہم سا فصیح البیان کوئی نہیں ہوتا۔ہم بڑی بے رحمی سے اس معاشرے کے بخیے ادھیڑتے ہیں۔ہمارا بس چلے تو سماج کا یہ مکروہ چہرہ نوچ ڈالیں۔ لیکن کاش کوئی ایسا اہلِ قلم، کوئی ایسادانشور بھی ہوتا جو معاشرے کے ان رویوں کی ہمدردانہ تفہیم کا بِیڑا اٹھاتا اور صدیوں کی غلامی کے اثرات کو ان کی تہہ تک پہنچ کر کھوج نکالتا۔اور پھر ایک ماہر نفسیاتی معالج کی طرح مریض کا دلجمعی اور محبت سے علاج کرتا۔پھر ہم بھی شاید اس ملک سے اپنی بے وجہ محبت کی وجہ جان جاتے ۔یہ ملک جو گدڑی میں لعل اور چیتھڑوں میں دبکے حسن کے شاہکار کی طرح ہمارے دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
سردار اظہر رحمٰن ایبٹ آباد ۱۸ مئی۲۰۲۱
ذاتی تعارف:اپنے بارےمیں گفتگو کرنا سب سے دشوار کام ہے۔پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہےکوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیابہرحال پیدائش اور ابتدائی تعلیم واہ کینٹ کےپرسکون اور پاکستانیت بھرے ماحول میں ہوئی۔کالج کے پہلے سال وہ شہر ہم سے چھوٹا اور وسطی پنجاب کا ایک اور پرامن و پرفسوں قصبہ مسکن قرار پایا جہاں درس وتدریس کابین الاقوامی ماحول دستیاب رہا۔ مگر پھر وہاں سے بھی رختِ سفر باندھا اورحسبِ خواہش در بدر کی خاک چھاننی شروع کی۔نصف بالائی پاکستان کا شاید ہی کوئی شہر ہمارے قدموں کی دستبرد سے بچا ہو۔اس گھوما پھری کے دوران رسمی تعلیم کا سلسلہ بھی گھسٹتا رہا اور پشاور یونیورسٹی سے ایم۔اے اردو پر منتج ہوا۔البتہ اکیسویں صدی کے اوائل میں سانحہ ِٔٔ عقد کے رونما ہو جانے کے بعد مجبوراً اور اتفاقاً آبائی وطن میں سکونت اختیار کرنا پڑی جہاں وقت گزاری کے لیے ایک نجی تعلیمی ادارے میں معل٘می کا شغل تا حال جاری ہے۔
متعلقہ
عجیب مافوق سلسلہ تھا۔۔۔از ، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
غزل ، از ، طاہر احمد بھٹی
Are Wills really Free?