آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

کراچی احمدی کا ناحق قتل ، از قلم، محمد حسن الیاس

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

ظلم، بے حسی اور مذہبی زوال کی داستان

(تحریر: محمد حسن الیاس)

کراچی میں ایک احمدی شہری کا ناحق قتل کوئی اتفاقی سانحہ نہیں۔ یہ اس مذہبی فکر کا برگ و بار ہے جو برسوں سے نفرت، تعصب اور تکفیر کی زمین میں پروان چڑھتا رہا ہے۔ یہ سانحہ محض ایک فرد پر زیادتی نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی اخلاقی زوال کی ایک لرزہ خیز علامت ہے۔

جب مذہبی اختلاف کو جان لینے کا جواز بنا لیا جائے، تو یہ محض قانون کی شکست نہیں رہتی، بلکہ پوری معاشرتی اخلاقیات کے انہدام کا باعث بن جاتی ہے۔ ہمارے وطن کی مٹی ظلم کی ایسی ہزاروں کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔

ان المیوں کی صف میں سب سے زیادہ دل خراش منظر ہمارے علما کی مجرمانہ خاموشی ہے۔ ظلم کی مذمت تو درکنار، بعض کے ہاں ظلم اب ایک ایسی بےحس روایت میں ڈھل چکا ہے جس پر نہ دل دہلتا ہے نہ ضمیر چونکتا ہے۔ کہیں قتلِ ناحق سے دستبرداری کو احسان سمجھا جاتا ہے، اور کہیں دینداری کی معراج مظلوموں کے خون سے ہاتھ رنگنے میں تلاش کی جاتی ہے۔

آج بھی جب احمدیوں کا تذکرہ ہوتا ہے، تو بعض علما کی زبانوں پر سب سے پہلے “غداری” کا فتویٰ آتا ہے۔ وہ مظلوم، جو جان بچانے کے لیے کسی بیرونی مدد کا سہارا لیتا ہے، “وطن فروش” کہلاتا ہے۔ اور جب کبھی ان کے حق میں انصاف یا ہمدردی کی بات کی جائے، تو اسے “قادیانی نوازی” کے طعنے میں لپیٹ کر دبا دیا جاتا ہے۔

کیسی عجیب منطق ہے کہ ظلم پر خاموشی دیانت کا معیار بن جاتی ہے، اور مظلوم کی حمایت غداری یا ارتداد سے تعبیر کی جاتی ہے۔ حالانکہ دین کا اولین تقاضا یہ ہے کہ حق کا علم ہر حال میں بلند رکھا جائے، خواہ مظلوم کسی بھی عقیدے یا جماعت سے تعلق رکھتا ہو۔ مظلوم، مظلوم ہوتا ہے؛ اس کی حمایت کسی عقیدے یا مسلکی شناخت کی محتاج نہیں۔ سچا ایمان تو یہ ہے کہ ہم حق کے ساتھ کھڑے ہوں، چاہے اس کے لیے ہمیں اپنے ہی قبیلے یا اپنے ہی تعصب کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا پڑے۔

جو قوم مظلوم کی حمایت کو طعنہ بنائے اور حق کی صدا پر الزامات کی بوچھاڑ کرے، وہ اپنی ہلاکت کی سند خود اپنے ہاتھ سے لکھتی ہے۔ ظلم کے خلاف غیرت وہاں ہی جاگتی ہے جہاں مظلوم ہماری پسند کا ہو؛ اور جہاں ظلم ہمارے ہاتھوں سے سرزد ہو، وہاں ضمیر موت کی نیند سوتا ہے اور آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں۔ دوسروں کے ظلم پر ہم اشکبار ہوتے ہیں، مگر اپنے ظلم پر سنگدل بن جاتے ہیں۔

جو لوگ غزہ کے نہتے معصوموں پر ظلم دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں، ان سے سوال ہے: کیا کبھی اپنے ہی وطن میں مذہبی تعصب کا شکار بےگناہوں کے لیے بھی دل بےچین ہوا ہے؟ کیا یہاں بھی معصوموں کے خون پر آنکھیں نم ہوتی ہیں؟ یا پھر ظلم پر خاموشی چھا جاتی ہے اور خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں؟

یہ دوہرا معیار درحقیقت ہمارے اجتماعی اخلاقی زوال کا سب سے نمایاں مظہر ہے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ باشعور مسلمان آگے بڑھیں، فتوٰی فیکٹریوں کے پیدا کردہ خوف کی زنجیروں کو توڑیں، اور ان مظلوموں سے شرمندہ ہو کر معافی مانگیں جنہیں محض عقیدے کے اختلاف کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔ ہمیں انہیں برابر کا انسان اور مساوی شہری تسلیم کرنا چاہیے، اور انہیں یہ حق دینا چاہیے کہ وہ اپنے دین اور اپنے خدا کو اپنی سمجھ کے مطابق اپنائیں اور عبادت کریں۔

دین اور اخلاق کا کوئی اصول ہمیں یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی کو اپنے فہم کا قیدی بنائیں یا اختلاف پر ظلم کا جواز تراشیں۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں، روزِ قیامت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیشی ہوگی، تو شاید مرزا غلام احمد کو “مسیح موعود” کہلانے پر جواب دینا پڑے۔ لیکن ان کے ماننے والوں پر ظلم و جبر کے جواز گھڑنے والے علما، شرمندگی اور خفت کے ساتھ سر جھکائے کھڑے ہوں گے۔

اور اس سارے عرصے میں جس صبر، ضبط اور عدمِ تشدد کی پالیسی احمدی جماعت نے اپنائے رکھی ہے، اور جس استقامت سے اپنے نوجوانوں کو صبر اور برداشت کی تعلیم دی ہے، وہ اپنی جگہ داد و تحسین کی مستحق ہے۔

آرزو ہے کہ اللہ ہماری قوم، بالخصوص مذہبی طبقات کو یہ شعور عطا فرمائے کہ ظلم، جبر اور تعصب پر مبنی ہر اقدام کا ایک دن ربِ ذوالجلال کے حضور حساب ہونا ہے۔ وہ ہمیں سچائی اور انصاف کے ساتھ کھڑے ہونے کی توفیق دے، اور ہمارے دلوں کو نفرت، تعصب اور ظلم کی ہر شکل سے پاک کر دے۔
آمین۔