حضرت سلطان باہورحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے
عشق محبت دریا دے وچ تھی مردانے تریئے ھوُ
جِتھے پَون غضب دیاں لہراں قدم اُتھائیں دھرئیے ھوُ
جماعت احمدیہ کے خلاف نصف صدی سے پاکستان میں ظلم و ستم کا بازار گرم ہے اور ہر آنے والے دور میں اس میں اضافہ ہوتا جا رہاہے۔ حکومتیں بھی اس میں حسب توفیق حصہ ڈال رہی ہیں ۔ اب تو معاملہ اس قدر گھمبیر اور خطرناک ہو گیا ہے۔بقول شاعر
جانے کب، کون، کسے مار دے کافر کہہ کے
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
گزشتہ روز کراچی میں چار دیواری کے اندر اللہ کے حضور اپنی عبا دت میں مصروف نہتے احمدیوں کے خلاف ایک ہجوم نے حملہ کیا ۔ ایک امدیحمدی حمدی دوست مکرم لئیق احمد چیمہ صاحب کو اینٹوں اور ڈنڈوں سے وار کرکے شہید کر دیا گیا اور باقی احباب کو صرف نماز جمعہ پڑھنے کے جرم میں گرفتار لیا گیا۔ افسوس کہ اس ظلم پہ ڈر کے مارےکوئی زبان کھولنے کی ہمت بھی نہیں کرتا کہ مولوی مخالف ہو جائیں گے۔ایسے میں ’’آئینہ ابصار‘‘ میں محترم محمد حسن الیاس صاحب کی ایک تحریر نظر سے گذری جسے پڑھ کر محسوس ہوا کہ
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
دریا کے بہاؤ پہ تیرنا کوئی کمال نہیں ۔ اصل کمال اور مردانگی یہ ہے کہ دریا میں بہتی طلاطم خیز لہروں کے مخالف سمت میں تیرنا پڑے تو انسان مردانہ وار چھلانگ دے۔آج وطن عزیز میں مذہب کے نام پہ عدل و انصاف کا خون کیا جارہا ہے۔ تحفظ ناموس رسالت اوردین اسلام کے نام پہ ظلم و بر بریّت کا بازار گرم ہے۔ خدا اور رسو ل ِخدا کے نام پہ جرائم ، بدمعاشی اور بلیک میلنگ کر کے ناموس رسالت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ یہ سب کچھ وہ مولوی حضرات کر رہے ہیں جن سے سادہ لوح عوام دین کی حفاظت کی امید لگائے بیٹھے ہیں اور ارباب اقتدار ان کے پنجے میں اس طرح گرفتار ہیں کہ ان کے ظلم کے خلاف ایک لفظ کہنے کی جرأت نہیں رکھتے اور سرکاری نگرانی میں قانون کے ساتھ کھلواڑ ہو رہاہے۔ آج سیاستدان ہوں یا بیوروکریٹ، جج ہوں یا جرنیل ، نہ صرف جماعت احمدیہ کے خلاف مظالم پر زبان کھولنے سے خوفزدہ ہیں بلکہ ہمارے خلاف ہرزہ سرائی کرکے اپنے آپ کو ختم نبوّت کا نام نہاد مجاہد ثابت کرنے اور علماء کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ اللہ سے نہیں مولوی سے ڈرتے ہیں ۔ گویا دوسرے الفاظ میں مولویوں کو ’’ربّ‘‘ بنائے بیٹھے ہیں ۔ اور یہ وہ بات ہے جو قرآن کریم کے مطابق یہودیوں میں پائی جاتی تھی اور آنحضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ امت بھی یہودیوں سے مشابہت اختیار کر لے گی (بخاری ، حدیث نمبر ۳۴۵۶)۔ یہودیوں کی بھی یہ حالت ہو گئی تھی کہ ارباب اقتدار اپنے یہودی علماء سے ڈر کے ان کی مرضی کے فیصلے کرتے تھے ۔ گویا انہیں ’’ربّ‘‘ بنایا ہوا تھا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ ( التوبہ:۳۲) کہ انہوں نے اپنے رھبان و علماء کو اللہ کے سوا رب بنا لیاتھا۔یعنی جو ظلم ان کے علماء کرتے تھے ، ارباب اقتدار اس ظلم میں ان کا ساتھ دیتے اور ظلم میں برابر کے شریک ہوتے تھے۔ آج بعینہ یہی کیفیت ہمیں پاکستان میں دکھائی دیتی ہے کہ حکومت بھی مولویوں کے ظلم میں برابر کی شریک ہے۔ بیورو کریٹس ان کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ عدالتوں میں علماء حضرات ڈنڈوں کے سائے میں احمدیوں کے خلاف فیصلے کروا رہے ہیں۔
جب اس طرح کا ماحول ہو تو اللہ کا واضح ارشاد ہے کہ وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ (ھود : ۱۱۴) کہ ظالموں کی طرف نہ جھک جانا ورنہ آگ تمہیں بھی چھوئے گی اور اللہ کو چھوڑ کر تمہارا کوئی بھی ولی یا مددگار نہ ہوگا۔ یعنی اللہ توفرما رہا ہے کہ ظالموں کی طرفداری مت کرنا بلکہ خدا لگتی بات کہنا اور اسی کے مطابق عمل کرنا۔ لیکن آج معاملہ الٹ ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر مولوی سے ڈرا جارہا ہے اور مظلوموں پر مزید ظلم کر کے ظالم کی طرفداری اور اس کی خوشنودی حاصل کی جارہی ہے۔ احمدیوں کو اپنے ملک میں انصاف حاصل نہیں، عام انسانی حقوق حاصل نہیں ۔ حتیٰ کہ چناب نگر(ربوہ) میں احمدیوں پر حکومت پنجاب کی طرف سے نیلام کئے جانے والے پلاٹس خریدنے پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ نیلامی میں کامیاب بولی دھندہ پلاٹ کے حصول کے بعد کسی بھی مرحلے پہ پلاٹ کسی احمدی کو فروخت کرنے کا مجاز نہ ہوگا ۔ اس سے ظلم کی انتہاء، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ کوئی گورنمنٹ اپنے ہی شہریوں کے خلاف اس حد تک بھی پاگل پن کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ افسوس وطن عزیز پہ دوہرے معیار و کردار کے مالک ان مکروہ لوگوں اور مولویوں کی حکمرانی ہے ۔
ایسے ماحول میں جب لوگ اس ظلم پہ لب کشائی کرنے سے خوفزدہ ہوں ،کوئی بیان یا تحریر نظر سے گذرے جس میں اس ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کی جرأت کی گئی ہو تو ا یسے افراد کی جرأت کو سلام نہ کرنا بھی ظلم ہے۔لہٰذا میں ان تمام افراد کی جرأت کو داد دینا اور ان کا شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں جو ہم سے بے شک عقیدے کا اختلاف رکھتے ہیں جو ان کا حق ہے۔لیکن کم از کم اسلامی مساوات، روداری اور بنیادی انسانی حقوق کی بات توکرتے ہیں۔ جو کلمۃ سواء کی پیروی میں اللہ کے سوا کسی کو’’ رب‘‘ نہیں بناتے( آل عمران:۶۵) اور وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ (المائدہ:۳) کے قرآنی حکم کے مطابق نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرتے ہیں ۔ ان میں محمد حسن الیاس صاحب، وسعت اللہ صاحب اور ان کے ساتھی،اسد طور ، عمر چیمہ،اعزاز سیّد اور بہت سے دیگر صحافی حضرات شامل ہیں۔اللہ ان سب دوستوں کی حفاظت فرمائے ۔ آمین
علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات
متعلقہ
جنگ فوجیں نہیں قومیں لڑتی ہیں، از، طاہر احمد بھٹی
پریس ریلیز، از، ترجمان جماعت احمدیہ ربوہ، پاکستان
انسانی خون لاشوں پر معاشرتی بے حسی، از قلم، ارمغان احمد داؤد