قومی شعور کی تشکیل کبھی بھی محض عقیدے کی بنیاد پر نہیں ہوتی وہ ایک پیچیدہ فکری عمل ہے جو تاریخ، عقل، اور تجربے کے مسلسل تعامل سے نمو پاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں علم کو عقیدے کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے، اور یہی وہ زاویۂ نظر ہے جہاں سے فکری جمود کی ابتدا ہوتی ہے۔
عقیدہ، ایک داخلی قوت ہے یہ انسان کے باطن میں ایک مرکزیت پیدا کرتا ہے، مگر جب یہ مرکزیت علمی جستجو کی راہ میں رکاوٹ بن جائے تو یہ مرکز نہ رہا، دائرہ بن جاتا ہے ایک ایسا دائرہ جس میں ذہن گردش کرتا ہے مگر آگے نہیں بڑھتا۔
ہم نے علم کو سوال سے الگ کر دیا ہے، حالانکہ سوال، علم کی اصل روح ہے۔ عقیدہ جب سوال سے خوف کھانے لگے تو وہ علم نہیں، ایک جامد روایت بن جاتا ہے۔ ہم نے عقیدے کو اتنا مقدس کر دیا کہ اس کے سامنے عقل محض ایک خاموش تماشائی بن کر رہ گئی۔ عقل کو اگر خاموشی کی عادت ہو جائے تو معاشرے بے آواز ہو جاتے ہیں، اور بے آواز معاشرے صرف تاریخ کے حاشیوں پر لکھے جاتے ہیں — ان کے مرکزی صفحات پر نہیں۔
علم ایک ایسا عمل ہے جو مستقل سوال، مسلسل تحقیق، اور جراتِ انکار سے جُڑا ہوا ہے۔ جہاں انکار کی گنجائش نہ ہو، وہاں ہاں کی معنویت بھی مشکوک ہو جاتی ہے۔ علم کی بنیاد ہمیشہ اس وسعت پر ہوتی ہے جو نظریات کو چیلنج کرنے سے پیدا ہوتی ہے، نہ کہ ان کو جامد رکھنے سے۔
پس، ہمیں اس شعور کی طرف پلٹنا ہوگا جہاں عقیدہ اپنی جگہ پر قائم رہے، مگر علم کو اپنی وسعتوں کے ساتھ سانس لینے کی اجازت ہو۔ جہاں ایمان، عقل کے دروازے بند نہ کرے بلکہ ان کے پہرے دار کے طور پر کھڑا ہو تاکہ قوم نہ صرف محفوظ رہے، بلکہ باخبر بھی۔
علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات
متعلقہ
جنگ فوجیں نہیں قومیں لڑتی ہیں، از، طاہر احمد بھٹی
پریس ریلیز، از، ترجمان جماعت احمدیہ ربوہ، پاکستان
انسانی خون لاشوں پر معاشرتی بے حسی، از قلم، ارمغان احمد داؤد