زمین کی سرکاری نیلامی میں احمدیوں کی شمولیت پر پابندی، حقوقِ شہریت پر پنجاب حکومت کا ایک اور پہلو سے حملہ۔ اس کے سیاسی سماجی اور آئینی مضمرات پر بات کرتے ہیں۔
پنجاب حکومت کے محکمہ ہاؤسنگ اور اربن ڈویلپمنٹ کی جانب سے جاری کردہ حالیہ حکم نامہ جس کے تحت چناب نگر کی ایریا ڈویلپمنٹ سکیم “مسلم کالونی” میں کسی احمدی کو نیلامی میں شرکت کی اجازت نہیں، محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ ایک فکری، اخلاقی اور تاریخی زوال کی علامت ہے۔ اس فیصلے کے تحت ہر خریدار کو یہ مصدقہ حلف دینا ہو گا کہ وہ “احمدی نہیں ہے” — گویا اب زمین پر حق رکھنے کے لیے بھی عقیدہ پیش کرنا ہو گا، ضمیر گروی رکھنا ہو گا۔
یہ سوال آج ہر باضمیر شہری کے دل میں ابھرنا چاہیے: زمین سے محرومی صرف ایک اقلیت کا مسئلہ ہے، یا یہ ایک بڑے اخلاقی اور قومی بحران کی علامت ہے؟ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کے خواب میں مذہب کی آزادی، انسانی مساوات اور شہری حقوق کی ضمانت تھی؟ یا یہ وہ پاکستان بن چکا ہے جہاں ایمان کی پیمائش سرکاری کاغذ پر کی جاتی ہے، اور زمین کو بھی عقیدے کی چھاننی سے گزارا جاتا ہے؟
یہ فیصلہ ایک اور سماجی چرکہ ہے جو تسلسل سے احمدیوں کے خلاف برسوں سے ان کے اجتماعی وجود پر لگایا جا رہا ہے۔ مگر یہ زخم صرف ایک طبقے کو نہیں لگا — یہ پاکستانی معاشرے کے اخلاقی وجود کو چھیلتا رہا ہے اور اب ایک مستقل ناسور بن چکا ہے۔
احمدیوں کو پہلے عبادت سے روکا گیا، پھر تعلیم، ملازمت، شناخت، قبرستان اور اب زمین تک — یعنی زندگی کے ہر پہلو سے انہیں عملاً نکال باہر کرنے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے، اور ایسا سرکاری طور پر باقاعدہ نوٹیفیکیشنز کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ تو سوال یہ ہے ریاست کے اور آئین کے منہ پر جانبداری کی کالک ملنے میں اور کیا کسر باقی ہے؟
اسی ضمن میں ایک اور منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے — 1974 کی وہ اسمبلی، جس نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر ایک تاریخی فیصلہ لکھا۔ اس وقت اس فیصلے کو دینی فتح، قومی وحدت، اور نظریاتی کامیابی قرار دیا گیا۔ لیکن وقت کے ساتھ اُس اسمبلی کا فیصلہ نہ تو قوم کو جوڑ سکا، نہ ملک کو سنوار سکا۔
ایسا فیصلہ جو ایک طرف آئینی تاریخ کا حصہ بنا، تو دوسری طرف اخلاقیانحطاط کی تاریخ کا المیہ۔ وقت کے ساتھ اُس اسمبلی کی حرمت، اُس کے فیصلے کی عظمت، سب مٹی ہو چکے۔
آج اس فیصلے کو نہ کوئی باشعور شہری عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، نہ کوئی مورخ۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اسمبلی جس نے “خدا بننے” کی جسارت کی تھی، آج خود بےاختیاری، غلامی اور ندامت کا استعارہ بن چکی ہے۔
اور بات صرف تاریخ دانوں تک محدود نہیں — آج کا عام پاکستانی شہری بھی جانتا ہے کہ اس اسمبلی کی کوئی عزت نہیں۔ کوئی بل اس کی مرضی سے پاس نہیں ہوتا، نہ کوئی قانون اس کے فہم سے جنم لیتا ہے۔ نہ پالیسی، نہ اصول — سب کچھ کہیں اور طے ہوتا ہے۔ اور اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اب اس بےاختیاری پر کوئی شرم بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ غلامی کو اب طوق نہیں، زیور سمجھا جانے لگا ہے۔
اب سوال یہ ہےکہ جس طرح اُس اسمبلی کا فیصلہ بعد میں آنے والے وقت میں ایک لعنت بن گیا، کہیں یہی انجام اس زمین کا بھی نہ ہو جس پر نفرت کی بنیاد پر پابندی لگا دی گئی؟
کیا وہ زمین جو اپنے ہی شہریوں سے امتیاز برتنے لگے، اپنی برکت اور حرمت قائم رکھ سکے گی؟
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی دھرتی جس پر ضمیر گروی رکھ کر قدم رکھا جائے، وہ پھل دے، خوشحالی لائے؟
زمین پر بھی آخر خدا کی بنائی ہوئی مخلوق ہے — وہ کب تک خاموش رہے گی؟ کیا وہ بھی ایک دن تھک کر بددعاؤں کا میدان نہ بن جائے گی؟
مٹی تو ماں ہوتی ہے، مگر جب وہ خود اپنے بچوں میں تفریق کرنے لگے تو کیا وہ ماں رہتی ہے یا نظریاتی میدان جنگ بن جاتی ہے جہاں جیت ہمیشہ نفرت کی ہوتی ہے؟
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک پہلے ہی مذہبی انتہاپسندی، معاشی زوال اور سیاسی بےیقینی کا شکار ہے۔ پنجاب حکومت خود ایک ایسی جماعت — تحریک لبیک — کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے جو خود قانون شکنی، نفرت انگیزی اور فکری انحطاط کی علامت ہے۔ کیا ریاست کا کام ان عناصر کے ایجنڈے کو نافذ کرنا ہے ، یا سب شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنا؟
اگر آج ہم نے یہ روش نہ بدلی، اگر ہم زمین کے حق داروں کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر حق ِ ملکیت سے محروم کرتے رہے، تو وہ وقت دور نہیں جب یہ زمین ہمارے قدموں تلے سے بھی پھسل جائے گی۔ زمین کے سینے میں بہت کچھ دفن ہو جاتا ہے، مگر ظلم اور تعصب کی فصل کبھی زمین پر دیر تک نہیں ٹھہرتی۔ وہ یا تو بربادی اگاتی ہے، یا مکمل ویرانی اپنی یادگار کے طور پر مسلط کر جاتی ہے۔
آج احمدیوں کو زمین سے بےدخل کیا جا رہا ہے۔ کل شاید تم بھی اس سے بےدخل کر دئیے جاؤ۔
یہ وقت صرف احتجاج کا نہیں — یہ وقت آئین، انسانیت، اور ضمیر مسلسل پکارتی ہوئی آواز کی طرف واپسی کا ہے۔
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے؟
متعلقہ
جنگ فوجیں نہیں قومیں لڑتی ہیں، از، طاہر احمد بھٹی
پریس ریلیز، از، ترجمان جماعت احمدیہ ربوہ، پاکستان
انسانی خون لاشوں پر معاشرتی بے حسی، از قلم، ارمغان احمد داؤد