اگر وہ اپنے رب کوبھی پکاریں تو اُن کی سزا موت ؟
مان لیا کہ ریاستِ پاکستان نے 1974 میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔
مان لیا کہ قانون کے مطابق وہ خود کو مسلمان نہیں کہلا سکتے۔
لیکن اگر کوئی دل سے اللہ کو مانتا ہے اور اُسکے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے ،رسولِ پاک (ص ) کو نبی مانتا ہے، اگر وہ محض اپنے عقیدے کے مطابق نماز پڑھ رہا ہے ، رب کو پکار رہا ہے — تو اس کی سزا موت کیسے ہو سکتی ہے؟
یہ کون سا اسلام ہے جو خُدا کو سجدہ کرنے پر جان لے لیتا ہے؟
یہ کون سا آئین ہے جو اپنے شہریوں کو اپنی چار دیواری میں عبادت سے روکتا ہے ؟
اور یہ کون سی ریاست ہے جو ہجوم کے ہاتھوں خونِ ناحق پر خاموش رہتی ہے؟
اسلام کے تحفظ کے نام پر… کیا سب کچھ جائز ہو گیا؟
ایک جتھہ “اسلام خطرے میں ہے” کا نعرہ لگا کر نکلتا ہے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے ، قتل کرتا ہے اور “لبیک یا رسول اللہ لبیک “کے نعرے لگاتے ہوئے فاتحانہ اندازمیں چل دیتا ہے ۔
یہ سوال صرف احمدیوں کا نہیں بلکہ یہ ہر پاکستانی کا سوال ہے :
اگر ہم نے مذہب کے نام پر قتل کو معمول بنا لیا اور اس کو ریاستی پشت پناہی اور آشیر باد دے دی تو پھر کل کلاں کو ہر مسجد، ہر مسلک، ہر مکتبِ فکر، کسی نہ کسی کو خطرہ لگنے لگے گا اور سب ایک دوسرے کے ہاتھوں ریاستی سر پرستی ہی میں مارے جا رہے ہونگے اور یہ آئین ان کی جان و مال کے تحفظ کے لئے ناکافی ہو گا۔
ختمِ نبوت پر ایک ہونے والے،
باقی اسلامی شعائر پر اختلاف رکھنے کی بنیاد پر بھی نشانہ بنیں گے۔
اگر عبادت جرم ہے تو بےگناہ کے قتل پر خاموشی گناہ ہے۔
آواز بلند کریں، ورنہ کل آپ کی باری ہے اور یہ ہر اس شخص کو جو خود لبیکیا نہ ہو، صاف صاف لکھا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
ابھی آواز اٹھائیں اور احمدیوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے اور اپنی نسلوں کے لئے!
متعلقہ
جنگ فوجیں نہیں قومیں لڑتی ہیں، از، طاہر احمد بھٹی
پریس ریلیز، از، ترجمان جماعت احمدیہ ربوہ، پاکستان
انسانی خون لاشوں پر معاشرتی بے حسی، از قلم، ارمغان احمد داؤد