آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے، از قلم، شائزہ انور

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

یہ جو ہم اور وہ کا قصہ ہے یہ اصل میں دو اذہان کی کشمکش ہے، دو تمدنوں کے خوابوں کا اختلاف ہے۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے اتنا بڑا کہ اُسے اپنے ہی قد کاٹھ کا اندازہ نہیں۔ جیسے کوئی پہاڑ اپنے سائے سے بے خبر ہو، یا سمندر اپنی گہرائی سے نابلد بڑائی کا جوہر صرف طاقت میں نہیں، برداشت، وسعتِ قلب اور ظرف میں ہوتا ہے۔ مگر بھارت کی سیاست اور میڈیا نے اس بڑائی کو شور، خوف، اور ضد میں بدل دیا۔
پاکستان اُن کے لیے ایک مسئلہ ہے، مگر وہ اس مسئلے کو اپنی انا کی عینک سے دیکھتے ہیں، اور انا کبھی حل تجویز نہیں کرتی وہ صرف آتش فشاں بناتی ہے۔ شکایتیں اگر سچ بھی ہوں، تو تعلقات کا دروازہ بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ دشمنی کو دشمنی سے نہیں، انسانیت، مکالمے اور دل سے توڑا جاتا ہے۔
ہزار بار دوستی کا ہاتھ بڑھانا پڑتا تو بڑھاتے، یہی تو بڑائی تھی۔ دلوں کو بدلنے کا فن توپوں سے نہیں آتا، وہ تو نغموں، کھیلوں، فلموں، ویزوں اور مشترکہ خوابوں سے سکھایا جاتا ہے۔ جن کے بچے بھارت میں تعلیم پاتے، جن کے فنکار وہاں داد پاتے جن کے کرکٹر وہاں عزت پاتے وہ پاکستان واپس آ کر نفرت نہیں کہانیاں لاتے۔ محبت کی، ربط کی، ہم آہنگی کی۔

مگر بھارت نے دروازے بند کر دیے، وہ دروازے جو دشمن ملک میں دوست بنانے کا واحد راستہ تھے۔ پاکستان کی غلطیاں سب جانتے ہیں، اُن پر تکرار فضول ہے۔ لیکن تعلقات باقی رہیں تو زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے۔ ایک قدم اگر سچ کی سمت اٹھ جائے تو راہ بھی ہموار ہو جاتی ہے، اور منزل بھی نزدیک لگنے لگتی ہے۔
اب کہتے ہیں جنگ سر پر کھڑی ہے۔ مگر جنگ میں صرف بندوقیں نہیں چلتی، وقت بھی زخمی ہوتا ہے۔ شکست صرف میدانِ جنگ میں نہیں ہوتی، وہ دلوں کے شکستہ ہونے میں ہوتی ہے، خوابوں کے مرنے میں ہوتی ہے۔ جنگ میں مرنے والے سپاہی نہیں، جیتے جاگتے خواب مرتے ہیں، بچپن کی ہنسی مرتی ہے، ماں کی دعائیں مرتی ہیں۔
اور یاد رکھو، اکیسویں صدی میں جنگ وہی ہارتا ہے جو پتھر کے دور کی سوچ کے ساتھ آئے چاہے اس کے پاس ایٹم بم ہو یا اقوامِ متحدہ میں ووٹ۔ کیونکہ اصل جیت اُس کی ہے جو تعمیر کرتا ہے، جو جوڑتا ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے امن لکھتا ہے۔
اب بھی وقت ہے دروازے کھولو، مکالمے کی گھنٹی بجاؤ، اور یاد رکھو کہ جو ملک دشمنی میں عظمت تلاش کرے، وہ خود اپنی عظمت گنوا بیٹھتا ہے۔