آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

انسانی خون لاشوں پر معاشرتی بے حسی، از قلم، ارمغان احمد داؤد

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

معصوم خون کی ارزانی اور ہماری بے حسی
تحریر ارمغان احمد داؤد

دنیا میں انسانی جان کی حرمت کو ہمیشہ ایک اعلیٰ قدر مانا گیا ہے، کم از کم کتابوں کی حد تک۔ مذاہب، فلسفے، آئین، قوانین، سب نے ایک بے گناہ انسان کی جان کا احترام کیا ہے۔ لیکن جب ہم اپنے اردگرد کے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ یہ سب باتیں صرف افسانے ہیں۔ حقیقی دنیا میں، معصوم انسانوں کے خون کی قیمت کسی ریاستی مفاد، کسی نظریاتی بیانیے یا کسی مذہبی تعصب کے آگے نہایت ارزاں ہو چکی ہے۔

آج کا معاشرہ شاید تاریخ کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ، ترقی یافتہ اور “باشعور” دور میں زندہ ہے، لیکن افسوس کہ ضمیر کی پستی اور اخلاقی تنزلی بھی اسی شدت سے موجود ہے۔ ہم نے جدید ٹیکنالوجی سے زندگی کو آسان تو کر لیا ہے، مگر دلوں سے وہ فطری درد، وہ انسانی ہمدردی، اور وہ بے ساختہ افسوس شاید کہیں بہت پیچھے کسی صدی میں چھوڑ آئے ہیں۔

جب ایک معصوم بچہ، ایک خاتون، یا ایک بے گناہ عام شہری کسی بمباری، گولی یا دھماکے کی بھینٹ چڑھتا ہے، تو پہلی نظر میں ہم چونک جاتے ہیں، دل دہلنے ہی لگتا ہے کہ اگلے ہی لمحے ہمارے ذہن میں سوالات کلبلانے لگتے ہیں جیسے کہ یہ کہاں کا واقعہ ہے؟، مرنے والا کون تھا؟، مارنے والا کون ہے؟، کیا وہ واقعی بے گناہ تھا؟، وغیرہ وغیرہ۔ اور ان سوالات کی روشنی میں ہم طے کرتے ہیں کہ ہمیں افسوس کرنا ہے یا خاموش رہنا ہے۔

یہی وہ لمحہ ہے جہاں انسانیت ہار جاتی ہے۔ ہم نے ظلم و جبر کو ظالمانہ توجیہات میں چھپا کر اپنی بے حسی کو جواز بخشنا سیکھ لیا ہے۔ اگر مرنے والا ہمارے مذہب، ہماری قوم یا ہمارے نظریے سے تعلق رکھتا ہو تو ہم چیخ اٹھتے ہیں، مظاہرے کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر طوفان بپا کر دیتے ہیں۔ اور اگر وہ “دوسرا” ہو، وہ جو “ہم میں سے” نہیں، تو ہم یا تو خاموشی اختیار کرتے ہیں یا ظالم کے لیے “پسِ منظر” تلاش کرتے ہیں۔

فلسطین کے مظلوموں کو دیکھیں، جہاں گزشتہ ڈیڑھ سال سے نہتے بچے، مائیں اور بزرگ مسلسل بمباری کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسکول، اسپتال، پناہ گاہیں کچھ محفوظ نہیں رہا۔ لیکن مغرب، جو آزادی، حقوقِ انسانی اور لبرل ازم کا دعویدار ہے، صرف اسرائیل کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے پاس اپنے رویے کے لیے “سلامتی”، “جوابی حملہ” یا “حقِ دفاع” جیسے جملے ہیں۔

اسی طرح کشمیر، افغانستان، شام، یمن، میانمار اور افریقہ کے کئی حصے انسانی لاشوں سے اٹے پڑے ہیں۔ کبھی ریاستی دہشتگردی، کبھی غیر ریاستی عناصر، اور کبھی بیرونی مداخلت کے نام پر بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ لیکن ہر طرف صرف بیانیے ہیں، وضاحتیں ہیں، اور سیاسی مصلحتیں ہیں۔

نائن الیون کے بعد امریکہ نے “دہشتگردی کے خلاف جنگ” شروع کی، جس کے نتیجے میں لاکھوں معصوم افغان شہری جان سے گئے۔ کیا وہ تین ہزار امریکی جانوں کا بدلہ تھے؟ کیا اُن بچوں، عورتوں اور بے گناہ لوگوں کا کوئی قصور تھا؟ اور پھر عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کے جھوٹے بہانے پر لڑی گئی جنگ، جس میں لاکھوں شہری لقمہ اجل بنے، آج تک کوئی معافی، کوئی پشیمانی نہیں آئی۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ “انسانی جان” اب ایک عالمی سیاست کا مہرہ بن چکی ہے۔ اس کی قدر و قیمت اُس کے عقیدے، قوم، اور جغرافیہ طے کرتے ہیں۔ ظلم کو ظلم کہنے کے لیے اب ضمیر سے زیادہ مفاد دیکھنا پڑتا ہے۔

مگر ہم، چند لوگ، چند آوازیں، آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی جان کا کوئی مذہب، کوئی قوم، اور کوئی رنگ نہیں ہوتا۔ جو بھی بے گناہ مارا جائے، وہ صرف انسان ہوتا ہے۔ نہ وہ فلسطینی ہونے کی وجہ سے معصوم ہے، نہ اسرائیلی ہونے کی وجہ سے مجرم۔ نہ وہ مسلمان ہونے کی وجہ سے قابلِ رحم ہے، نہ ہندو ہونے کی وجہ سے قابلِ نظر انداز۔ جتنے بلوچستان میں مرنے والے پنجابی مزدور معصوم ہیں اور ناحق قتل کئے جاتے ہیں بالکل ویسے ہی مقبوضہ کشمیر میں ہندو سیاحوں کا قتل بھی ناحق و ناجائز ہے۔ معصوم خون صرف معصوم ہوتا ہے، اور اس کے بہنے پر ہر حال میں دل رونا چاہیے، ضمیر تڑپنا چاہیے، اور زبان کو احتجاج کرنا چاہیے۔

ہم ہر اُس دلیل، ہر اُس توجیہ اور ہر اُس جواز کو مسترد کرتے ہیں جس کے نیچے کسی بے گناہ کی لاش دبی ہو۔ ہم ہر اس سوچ کے مخالف ہیں جو معصوم خون کو “سیاسی نقصان” یا “ناگزیر نتیجہ” یا “مذہبی ٹچ” کہہ کر نظر انداز کرتی ہے۔ کاش کہ دنیا اس نکتہ کو سمجھ لے کہ ظلم اگر دلیل مانگنے لگے تو انصاف ہمیشہ دفن ہو جاتا ہے۔

آئیں، انسان بن کر معصوموں کی لاشوں میں سوگوار ہونا سیکھیں۔