سلیم ملک۔ مورخہ 7 مئی 2021 ۔ بشکریہ” ہم سب”
پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے چند دن قبل شائع ہونے والے آرٹیکل ہمیں اپنی اقلیتوں کی قوت برداشت پر فخر ہے پر ایک قاری نے کچھ یوں تبصرہ کیا۔ ”سلیم ملک بھول گئے کہ پاکستان میں اقلیتوں سے بھی زیادہ مظلوم ایک ایسا گروہ ہے جو کسی گنتی میں ہی نہیں آتا۔ پاکستان کا یہ وفادار گروہ جماعت احمدیہ کے نام سے تمام دنیا میں اپنی امن پسندی اور رفاہی کاموں کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا ہے جسے پاکستان کے آئین کی ایک ترمیم کے ذریعہ مسلمان سے غیر مسلم بنا دیا گیا اور قانونی طور پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ نہ کلمہ طیبہ پڑھو (یعنی مت کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور مت اقرار کرو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ) اور نہ نماز ادا کرو۔ نہ قرآن کی تلاوت کرو۔ نہ اپنی عبادت گاہ کو مسجد لکھو اور نہ کسی دوسرے پاکستانی سرکاری مسلمان کو اسلام وعلیکم کہو۔ اور اگر کہو گے تو تین سال قید کی سزا اور جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔“”سلیم ملک صاحب جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس قانونی غیر مسلم گروہ کی مظلومیت کو نظر انداز کر کے اپنی صحافتی دیانتداری کو مشکوک بنانے پر راضی ہیں یہ ان کی مجبوری تو ہو سکتی ہے مگر یورپی یونین اور دوسرے بین الاقوامی ادارے کیوں مجبور ہوں گے“
اس تبصرے کا مخلصانہ شکریہ۔ آپ نے جس مسئلے کا ذکر کیا ہے اس پر میرے ایک سے زیادہ کالم شائع ہو چکے ہیں۔ اور اب بھی آپ کے تبصرے کے جواب میں ایک نیا مضمون حاضر ہے۔ گو کہ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ساری باتیں بہت لوگ بار بار لکھ چکے ہیں لیکن یہ ہمیں اس وقت تک لکھتے اور چھاپتے رہنا چاہیے جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔ میں مذہبی آزادی کا قائل ہوں اور اپنے وطن پاکستان میں شخصی آزادی جس میں مذہبی آزادی بھی شامل ہے اس کا راج دیکھنا چاہتا ہوں۔مذہبی آزادی صرف سیکولر ممالک میں ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں بھی مذہبی آزادی تبھی ممکن ہو گی جب وہ ایک سیکولر ملک بن جائے گا۔ سیکولر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور ریاست کا کسی مذہب سے تعلق نہ ہو۔ ہر شہری کی مذہبی آزادی مکمل اور برابر ہو۔ حکومت کا کام صرف اور صرف لوگوں کے مذہبی آزادی کے حق کی حفاظت ہو۔ ہم ہمیشہ پاکستان کو سیکولر ملک بنانے پر زور دیتے ہیں۔ آپ کس مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے اور کسی کو بھی اس سلسلے میں آپ سے سوال پوچھنے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کی حکومت اگر آپ سے عقیدے کے متعلق سوال پوچھتی ہے تو یہ مذہبی تفریق کی جانب پہلا قدم ہے۔ آپ کے کسی بھی شناختی دستاویز، قومی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ پر مذہب کا خانہ ہی نہیں ہونا چاہیے۔حکومت صرف مردم شماری یا کسی دوسرے ایسے سروے میں آپ کے عقیدے کے متعلق سوال پوچھ سکتی ہے جو ریسرچ کی غرض سے کیا جا رہا ہو۔ سروے کرنے والے ادارے اور حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آپ کی ذاتی معلومات کو خفیہ رکھے اور صرف اس ریسرچ کے لیے استعمال کرے جس کے لیے وہ معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ اور ایسے ذاتی سوالات کے جوابات بھی رضاکارانہ ہونے چاہیے۔ اگر آپ جواب نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں۔ کوئی زبردستی نہیں ہونا چاہیے۔پارلیمنٹ یا ریاست کے کسی بھی ادارے کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی شخص یا گروہ کو کافر یا مسلمان قرار دے۔ ہر شخص کا مذہب یا عقیدہ وہ ہے جو وہ خود سمجھتا ہے کہ اس کا ہے۔ کوئی بھی گروہ اپنی عبادت گاہ کو کیا کہتا ہے یہ اس کی اپنی خوشی ہے۔تمام پاکستانی بحیثیت شہری برابر ہیں۔ پاکستان کا آئین بھی یہی کہتا ہے۔
آئین کی ایسی تمام شقیں جو اس شق سے متصادم ہیں کہ تمام شہری برابر ہیں وہ نکال دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ پاکستان میں بہت زیادہ پراسیکیوشن ہوتی ہے۔ میں اس پراسیکیوشن کے خاتمے کی بھرپور حمایت کرتا ہوں۔ یہ معاملہ بہت سے انسانوں کے لیے نہایت تکلیف دہ اور پاکستان کے لیے شدید بدنامی کا باعث ہے۔ ان معاملات کی درستی کی بہت ضرورت ہے
متعلقہ
عجیب مافوق سلسلہ تھا۔۔۔از ، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
غزل ، از ، طاہر احمد بھٹی
Are Wills really Free?