آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

ابا کا آنگن،از قلم، سعدیہ طارق

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

                 “ابا کا آنگن”
رات بجلی گئ تو سب گھر والے باہر صحن میں نکل کر بیٹھ گئے  آسمان پر نظر پڑی تو ستارے بڑی دور نظر آئے ان کی چمک دھمک بھی پہلےسی نہیں تھی بلکہ اسی طرح ماند پڑ تی محسوس ہوئ  جیسے  ہم خود رفتہ رفتہ ماند پڑ رہے ہیں – ماند پڑتے تارے مجھے ان چمکتے ستاروں کے وقت میں لے گئے جو میرے ابا کے آنگن میں چمکتے تھے، ابا کے آنگن میں سیاہ رات بھی ان کی چمک کو اپنی سیاہی سے مدہم نہیں کر سکتی تھی-
خوشیوں سے اور سکون سے بھرا  ہوا  گھر بہن بھائیوں کی آپس کی معصوم چھیڑ خانیاں،شرارتیں چٹکلے، رات کو صحن میں بستر پر لیٹ کر تارے گننا یادوں کاجھروک سا کھل گیا –
شام کو صحن میں پانی کا چھڑکاو کیا جاتا تھا – اس کے بعد چارپائیاں  بچھائی جاتی  تھیں ان پر بڑے قرینے سےصاف ستھری چادریں بچھائی جاتی تھیں- -گھر کےبڑے شام کی چائے صحن میں بیٹھ کر ہی پیتے تھے بچوں کو چائے نہیں دی جاتی تھی کہ چائےکی عادت پڑ جائے گی، سب بچوں کو گرمی کے موسم میں  دودھ میں سوڈا  پلایا جاتا تھا اگر کسی نے دودھ سے انکار کرنا تو زبردستی اسے پلایا جاتا تھا-
اندھیرا شروع ہوتے ہی ٹی وی بھی باہر میز پر رکھ دیا جاتا تھا رات کا کھانا بھی صحن میں ہی کھایا جاتا تھا –
امی کی یہ فکر کہ لڑکیوں کو گھر داری سکھانی ہے “اٹھو روٹی تم بناو گی رات کو کچن تمھارے ذمہ ہے” ساری شام کا مزا خراب کر دیتی تھی، آنکھوں میں آنسو لئے  کچن میں چلے جانا دل میں اس یقین کے ساتھ کہ شائید ہم ہی وہ  سنڈریلا ہیں جس کی کہانی بہت دفعہ سنائی جاچکی ہے ، (وقت گزرنے کے ساتھ ہر روز امی کو دعا دیتے ہیں کہ انہوں نے کام کی عادت ڈالی،   اللہ کے فضل سے کوئی کام بوجھ نہیں لگتا) –
رات سونے سے پہلے چار پائیوں کو دوبارہ ترتیب دیا جاتا تھا پنکھے کے سامنے ایک بھائی کی چار پائی پھر دوسرے بھائی کی چار پائی اس کے بعد بہنوں کی چارپائی پھر امی ابا کی چارپائیاں پائنتی گھر میں مددگار ملازم بچہ جو وقت کے ساتھ بدلتا رہا کبھی وہ صادق ، کبھی نکی اور کبھی کسی ماسی میں بدل جاتا تھا لیکن وہ بھی گھر کا ایک فرد جانا جاتا تھا ہر جگہ ساتھ ہوتا تھا-
ضد کے باوجود لڑکیوں کو سائیڈ والی چارپائی نہیں ملتی تھی  (بیٹیوں کی اتنی حفاظت؟) اگر  کبھی زیادہ ضد کرنی پنکھے کے سامنے سونے کی تو پنکھا سرہانے کی طرف رکھ دیا جاتا تھا تاکہ سب کو ہوا برابر لگے-
  رات امی ابا  نماز کا سبق سنتے ، کوئی دعا یاد کرواتے  کبھی دونوں  اپنے بچپن کے واقعات سناتے تھے ہم  یہ سب سنتے ہوئے ساتھ ساتھ آسمان پر کسی چلنے والے ستارے کو ڈونڈھتے ڈونڈھتے  سو جاتے ، صبح ابا کی محبت بھری آواز کان میں پڑتی ” الصلوة خير من النوم” جلدی سے اٹھنا بند آنکھوں کے ساتھ وضو کرنا  تاکہ  نیند نہ اڑ جائے، نماز کےبعد  گرم کمروں میں پنکھے کی لو میں ایک گھنٹے کی نیند امی کا سکول کے لئے جگانا اور پنکھا بند کر دینا اس وقت امی سب سے ظالم لگتی تھیں اب سوچ کے کتنا اچھا لگتا ہے  وہ وقت پلک جھپکتے گزر گیا-
شام کو محلے کے بچوں کے ساتھ باہر جاکر کھیلنا گھر والوں نے کہنا  زیادہ دور نہ  جانا ورنہ پٹھان پکڑ کر لے جائے گا (معذرت پٹھان لوگوں سے)بس یہ ایک ہی ڈراوا کافی ہوتا تھا – بڑے ہوکر   آج تک  وہ پکڑنے والا پٹھان  کہیں نظر نہیں آیا،  اچھے پٹھان ہی دیکھے ہیں-
پتہ نہیں یہ بچپن اتنی جلدی کیوں گزر گیا ابھی تو بہت ساری محبتیں سمیٹنی  تھیں ، پھر وقت بدلنا شروع ہوگیاگھروں کے رہن سہن بدلنے شروع ہو گئے ، اےسی آگئے ،صحن کی جگہ لاونج بن گئے، خوب سے خوب تر کی جستجو نے بہت کچھ ہم سے چھین لیا ، چمکتے ستارے مدہم اور دور ہوتے چلے گئے ،ساتھ سونے جاگنے والے بہن بھائی بھی دور ہوگئے، امی ابا بھی چھٹ گئے،  وقت کے دھاروں میں سب کچھ مدہم پڑ گیا ، “بجلی آگئ “کی آواز نے  سب یادوں کے کواڑ  بند کردئے” ہم ابا کے آنگن سے ایک بار پھر جدا ہوگئے” ،
“یاد ماضی متاع حیات ہے
یارب بڑھادے حافظہ میرا”