آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

عکس ٹوٹا کہ آئینہ ٹوٹا، از قلم ، مونا فاروق

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

سجدے کی سزا: لئیق چیمہ کی شہادت اور ریاست کی خاموشی
 
یہ تحریر اُس لمحۂ الم کی بازگشت ہے جو لئیق احمد چیمہ کی بے گناہ شہادت کے ساتھ ہم پر وارد ہوا۔
یہ صرف ایک سجدے کی سزا کی داستان نہیں، بلکہ ایک اجتماعی ضمیر کی خاموشی کا نوحہ ہے۔
مساجد کے در پر بہنے والا خون، ریاست کی بے حسی، اور معاشرتی سکوت — سب ایک سوال بن کر ہمیں جھنجھوڑتے ہیں۔
یہ مضمون ایک سوال بھی ہے، ایک احتجاج بھی، اور ایک آئینہ بھی۔
 
لئیق احمد چیمہ اب ہم میں نہیں رہے۔ عمر محض سینتالیس برس، سات معصوم بچوں کا باپ، ایک پُرامن، محنت کش اور دیانت دار شہری، جس نے کبھی قانون شکنی نہ کی، نہ کسی کا حق مارا۔ اس کا واحد قصور یہ تھا کہ اُس نے خدا کے حضور سجدہ کرنے کی خواہش کی — اور یہی “جرمِ بے گناہی” اُس کے قتل کی بنیاد بنا۔
کراچی کے احمدیہ ہال کے باہر لئیق احمد چیمہ کو تحریک لبیک کے سنگ دل ہجوم نے اینٹوں، لاٹھیوں اور وحشت آلود نعروں کے سائے میں شہید کر دیا۔ ایک مسجد، جو امن، عفو اور رحمت کی علامت ہونی چاہیے تھی، مقتل بن گئی۔
یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ لئیق احمد چیمہ صرف ایک عبادت گزار نہ تھا بلکہ ایک گواہ بھی تھا—ایسے ظلم کے خلاف جسے ہمارے معاشرے میں مذہب کا لبادہ اوڑھا کر مقدس بنا دیا گیا ہے۔ پولیس ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ وہ تحریکِ لبیک پاکستان کے خلاف جاری ایک عدالتی مقدمے میں کلیدی گواہ تھا۔ اس کی شہادت محض سجدے کی پاداش نہ تھی، بلکہ ایک سچ بولنے والے کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دینے کی منظم کوشش تھی۔
 
یہ واقعہ محض ایک فرد کی موت نہیں، بلکہ پوری قوم کے ضمیر پر لگنے والا ایک بدنما داغ ہے۔ لئیق احمد کا وجود اُس سوچ کی علامت تھا جو رب سے تعلق کو انسانوں کی اجازت کی محتاج نہیں سمجھتی۔ مگر اس ملک میں، جہاں اقلیتوں کو اپنی پہچان چھپانی پڑتی ہے، جہاں عبادت جرم بن جائے، وہاں سچ بولنا بغاوت بن جاتا ہے، اور سجدہ کرنا سزا۔
 
ریاست، جو ہر شہری کے جان و مال کی محافظ ہے، مجرمانہ خاموشی اختیار کیے بیٹھی ہے۔ آئین کی شقیں، جو مساوات اور مذہبی آزادی کی ضمانت دیتی ہیں، ان کے صفحے تو سلامت ہیں، مگر معنی مدتوں پہلے دفن ہو چکے ہیں۔
 
یہ ظلم صرف احمدیوں کے ساتھ نہیں — یہ ہم سب کے ساتھ ہے۔ کیونکہ جب ظلم کو مذہب کا لبادہ پہنا دیا جائے، اور ریاست اُس لبادے کو نظرانداز کرے، تو معاشرہ صرف اقلیت کے لیے نہیں، اکثریت کے لیے بھی خطرناک ہو جاتا ہے۔
 
لئیق احمد چیمہ کی شہادت ایک سوال ہے — گہرا، تلخ، اور چبھتا ہوا سوال: کیا اس ملک میں خدا سے رابطہ بھی اکثریت کی اجازت سے مشروط ہے؟ کیا مسجد کے دروازے اب صرف اُن کے لیے کھلیں گے جو مخصوص فقہی سند کے حامل ہوں؟ کیا ریاست محض مقتدر طبقات کی رضا جوئی کا آلہ بن کر رہ جائے گی؟
 
وقت آ چکا ہے کہ ہم اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑیں۔ ہمیں محض غم کا اظہار نہیں، عملی احتجاج اور فکری مزاحمت کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس ظلم کو ظلم کہنے کی جرأت کرنی ہوگی—خواہ وہ اکثریت کے ہاتھوں ہو یا ریاست کی سرپرستی میں۔
 
لئیق چیمہ شہید ہو چکے۔ مگر اُن کا خون ایک سوال بن کر ہماری رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ یہ سوال ہم سے جواب مانگے گا، آج نہیں تو کل۔ اور اگر ہم نے اس کا سامنا نہ کیا، تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔