آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

جنگ، انسانیت کی تذلیل ،فرعونیت کی بلے بلے، از، شائزہ انور

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

یوں لگتا ہے جیسے وقت کی شکستہ قبا میں ایک بار پھر وہی پرانے دھاگے سے پیوند لگانے کی کوشش ہو رہی ہو۔ بظاہر چیخیں، نعرے، توپوں کی گرج اور میزائلوں کی سنسنی خیز سرگوشیاں آسمان پر بے چین پرندوں کی طرح منڈلا رہی ہیں، مگر اہلِ بصیرت جانتے ہیں کہ یہ شور بھی آخرکار اسی خستہ حال خامشی میں تحلیل ہو جانا ہے جس کا ہم سب عرصے سے حصہ ہیں۔
جنگ اب ان مقدس لفظوں میں سے ایک ہے جنہیں صرف زبانی جمع خرچ کے لیے برتا جاتا ہے۔ ہلاکت خیزی کی وہ اصل وحشت، جو تاریخ کے پرانے اوراق سے خون ٹپکاتی تھی، اب سرمائے کے حساب کتاب میں کہیں گم ہو چکی ہے۔ دونوں طرف کی حکومتیں، جیسے شطرنج کے دو کمزور کھلاڑی، اپنے پیادوں کو آگے بڑھا کر بادشاہ کو محفوظ رکھنے کی بچگانہ چالیں چل رہی ہیں۔
سرحدوں پر چند بے کار گولے برسیں گے، کسی انجان دیہات کے خاموش درختوں کے سائے کٹے پھٹے وجودوں پر جھک جائیں گے، اور شہروں میں کچھ بے نام چیخیں اندھی گلیوں میں دب کر رہ جائیں گی۔ بھارت شاید کوئی سرجیکل وار کرنے کا دعویٰ کرے، اور پاکستان شاید دل گرفتہ شہادتوں کے نوحے لکھے۔ لیکن یہ سب، دراصل، ایک طے شدہ مکالمے کی ادائیگی ہو گی، جس کے اسٹیج کے پیچھے سیاست کی مکّار مسکراہٹیں چھپی ہوں گی۔
اصل کامیابی
وہ ان صفوں میں حاصل ہوگی جہاں مہنگائی، بے روزگاری، ناانصافی، اور بداعتمادی کا شور تھوڑی دیر کے لیے دھیما ہو جائے گا۔ ایک مصنوعی دشمن تراشی کی آڑ میں اندرونی زخموں پر وقتی پٹیاں باندھی جائیں گی۔ قوموں کو ایک مرتبہ پھر بتایا جائے گا کہ باہر کا خطرہ اندر کی بربادی سے بڑا ہے۔ اور یوں حاکم اپنے محلات کے کمروں میں چین کی سانس لیں گے، اور رعایا اپنی عسکریت زدہ محبت کو حب الوطنی سمجھ کر مزید نادار ہوتی جائے گی۔
مگر وقت کا آئینہ بھی کبھی کبھی، چاہے دھندلا ہی سہی، سچائی کا ایک خاموش عکس دکھا دیتا ہے
کہ اصل جنگ باہر نہیں، اندر لڑی جا رہی ہے۔ اور ہار، ہمیشہ اندر ہی ہوتی ہے۔