چرچل کا ایک جملہ مشہور ہے کہ اگر آپ کی عدالتیں انصاف دے رہی ہیں تو فکر نہ کریں برطانیہ کو کچھ نہیں ہوتا۔
پاکستان اور خاص طور پر ریاستِ پاکستان کچھ ایسے مفروضوں پر یقین رکھتی ہے جو صرف پاکستان کے لئے ہی قابل عمل ہیں، دنیا کے دیگر ممالک میں ایسا ہونا نا ممکن ہے۔
حالیہ صورتِ حال میں انڈیا نے جنگی امکانی صورتِحال پیدا کی، اور ہیجانی بیانات کا جواب دینے کے لئے
قومی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا،
اسحاق ڈار نے دوست ممالک سے رابطے کئے،
خواجہ آصف نے مودی پن کا جواب اس سے زیادہ مودی پنے کے ساتھ دیا،
شہباز شریف نے منہ توڑ جواب دینے اور
آرمی چیف نے پاکستان کے دفاع کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا اعلان کیا۔
ہیجان اور پھڑ لو پھڑ لو کے سر پہ پانی ٹرمپ کی میڈیاء ٹاک نے پھیر دیا۔
جہاز اڑنے لگے، آرمی کی موومنٹ سرحدوں کی طرف ہونے لگی اور سوشل میڈیاء پر میمز بننے لگیں۔
ایسا دونوں طرف سے ہو رہا ہے اور ایسا چلے گا جب تک کچھ ہا نہیں جاتا۔
انڈیا کیا ہے اور کیا کر سکتا ہے اور کہاں تک جائے گا یہ سیاسی پنڈت بتاتے رہیں گے البتہ اس کا پلڑا معاشی، سیاسی اور بین الاقوامی نفوذ اور رسوخ میں بھاری ہے۔
پاکستان سر پر پڑنے پر لڑے گا تو سہی مگر پیغام تو دنیا کو اور بھارت کو ٹھیک طریقے سے دینا چاہئے تھا۔
مذکورہ بالا گیدڑ ٹپوشیاں جو وزراء اور کٹھ پتلیوں کے ذریعے ماری گئی ہیں ان کا سنجیدہ اثر نہ باہر پڑا ہے اور نہ گھر کے اندر۔
اگر اعلانات کچھ اس طرح کے ہوتے کہ،
سندھ دریا پر کینالز کا منصوبہ ختم کر دیا ہے، ہم نوٹیفیکیشن واپس لے رہے ہیں، اہالیانِ صوبہ سندھ دھرنا ختم کر دیں، ہم پر بیرونی افتاد ہے، یہ وقت اندرونی افتراق کے لئے انتہائی نا مناسب ہے۔
عمران خان کو رہا کر دیا گیا ہے، اس وقت قومی مفاد کے لئے مکمل یکجہتی ریاستِ پاکستان کی اولین ضرورت ہے اس لئے فارم سینتالیس کی حکومت اور افواجِ پاکستان کے ساتھ کھڑے رہیں۔
خیبر پختونخواہ ملکی مفاد میں زیادہ بالغ نظری کا ثبوت دے اور طالبان کے سامنے عوامی سطح پر ڈٹ جائے۔
بلوچستان پاکستان کا حصہ ہونے کا عملی مظاہرہ کرے، ریاست بھی ڈاکٹر ماہ رنگ نوعیت کے معاملات پر دو قدم پیچھے ہٹ کر ڈاکٹر مالک اور اختر مینگل قسم کے لوگوں کو دو قدم آگے لائے اور مسنگ پرسن کے مدعے پر لوگوں کو گدھا بنانے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔
پنجاب اور سندھ میں احمدیوں کی ٹارگٹ کلنگ سے سرکاری سر پرستی ہٹا لی گئی ہے ۔ احمدی پاکستان کے برابر کے شہری ہیں اور ان کے آئینی حقوق پر لبیکئیے نہیں چھوڑے جائیں گے اور ان کی عبادت گاہوں کے ساتھ امتیازی بدسلوکی کرنے کے لئے آئینی اور قانونی جواز گھڑنے بند کر دئیے گئے ہیں۔
اس مشکل گھڑی میں ملک اور قوم کو ایک ایک فرد کی وفاداری محبت اور دعا کی ضرورت ہے ۔ ہم امتیازی سلوک اور آئینی بدمعاشیاں ایسے وقت میں افورڈ نہیں کر سکتے۔
ایسے اعلانات کر کے پھر توپوں ٹینکوں پر کپڑا پھیر کر بیٹھ جاتے، لوگ آپ کے ساتھ ہوتے۔
ایک سرے سے دوسرے سرے تک آپ ایک قوم ہوتے جس کی فوج جنگ میں جھونکی جاتی مگر جینا مرنا سب کا ایک ساتھ ہوتا۔
رضا کاروں کے ٹھٹھ لگ جاتے اور کچھ بھی نہ کہتے تو بھی چین سے امریکہ اور جاپان سے روس تک ساری دنیا جان لیتی کہ پاکستان بحیثیتِ قوم ڈٹ گیا ہے اور اب جو ہو سو ہو۔
ایسا سنجیدہ پیغام تو آپ نے دیا نہیں بلکہ ایسا سوچا بھی نہیں،
آپ کی عدالتیں انصاف نہیں دے پا رہیں، بلکہ آزاد ہی نہیں ہیں،
آپ کی پارلیمنٹ یرغمال ہے،
آپ کا سب سے زیادہ ووٹ لینے والا سابقہ وزیراعظم قید ہے اور اس کے سپورٹر دنیا بھر میں آپ کے خلاف بول رہے ہیں،
آپ کے سندھ کے ایکٹوسٹ پبلک کو دھرنے میں لا کے بٹھا چکے ہیں اور کینالز منصوبے کو سندھ طاس کی طرح کی خلاف ورزی کہتے ہیں۔
عمران خان کے سپورٹرز آپ کو گالیاں دیتے ہیں، اور
احمدی آپ کو بدعائیں دینے پر مجبور ہیں۔
تو اس صورتِ حال میں آپ کون سی حب الوطنی کے ترانے گائیں گے اور کیا واقعی قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہو گی۔
تو وار کالج میں جو پڑھا تھا یا پڑھایا تھا کہ دنیا کی کوئی فوج کامیاب نہیں ہو سکتی اگر قوم ساتھ نہ کھڑی ہو، اس فلاسفی کا اب کیا بنے گا۔
آپ کی دفعہ یہ اصول غلط ہو گا اور باقی دنیا کے لئے صحیح؟
نریندر مودی نے اس حقیقت کو سامنے رکھ کر آپ کو للکارا ہے، ورنہ تو پاکستان واقعی تگڑا تھا۔ اس کو کمزور آپ اور آپ کی سیاسی سرگرمیوں نے کیا ہے اور ٹرمپ کی جملے بازی آپ کی کوتاہ نظری پر ہے، پاکستان کے حقائق کچھ اور طرح کی سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں، جو آپ میں نظر نہیں آتی
جان جاتی دکھائی دیتی ہے
تیرا آنا نظر نہیں آتا
متعلقہ
پریس ریلیز، از، ترجمان جماعت احمدیہ ربوہ، پاکستان
انسانی خون لاشوں پر معاشرتی بے حسی، از قلم، ارمغان احمد داؤد
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے، از قلم، شائزہ انور