آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

تاریخی عظمت کی بے رنگ تصویریں، از، شائزہ انور

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

نفرت اور محبت انسانی وجود کے وہ دو کنارے ہیں جن کے درمیان پوری زیست ایک متذبذب کشتی کی مانند ڈولتی رہتی ہے۔ یہ محض جذبات نہیں بلکہ انسانی شعور کی بنیادی کیفیات ہیں جو ہماری ذات کی تشکیل میں خمیر کی مانند گندھی ہوئی ہیں۔

نفرت بظاہر ایک ردِعمل سہی مگر اپنی اصل میں وہ ایک خاموش اور مسلسل اذیت ہے۔ یہ وہ آتش ہے جو سب سے پہلے اپنے ہی ظرف کو جلاتی ہے۔ نفرت میں جمالیات مر جاتی ہے تخیل سکڑ جاتا ہے اور انسان ایک ایسی داخلی ویرانی کا شکار ہو جاتا ہے جہاں نہ کوئی صدا ہے نہ کوئی جواب۔ یہ ایک نفسیاتی تنہائی ہے جس میں فرد سب سے پہلے خود اپنے وجود کو رد کرتا ہے اور پھر اس تردید کی توسیع دوسروں تک کر دیتا ہے۔
اس کے برعکس محبت، ایک تخلیقی تجربہ ہے ایک جمالیاتی واردات جس میں کائنات اپنے سب رنگوں کے ساتھ شریک ہو جاتی ہے۔ محبت صرف وصل نہیں، بلکہ ایک مسلسل تہذیبی عمل ہے جس میں رقص ہے، موسیقی ہے اور وہ سکوت ہے جو شور سے نہیں بلکہ روح کے قرار سے جنم لیتا ہے۔ محبت محض تعلق کا نام نہیں، بلکہ وہ شعور ہے جو فرد کو اپنی ذات کے وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت دیتا ہے۔
نفرت توڑتی ہے جبکہ محبت جوڑتی ہے اور جو چیز جوڑتی ہے وہی تعمیر کی بنیاد رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محبت میں شعریت جنم لیتی ہے، جبکہ نفرت میں صرف صدا کا کھنڈر باقی رہ جاتا ہے۔
پس یہ دو جذبے ہماری زندگی کے صرف تجربات نہیں، بلکہ ہمارے تخلیقی و تہذیبی وجود کی سمتوں کا تعین کرتے ہیں۔ اگر ہم نے نفرت کو جڑ پکڑنے دی تو ہم صرف دوسروں کو نہیں خود اپنے تخیل، اپنی زبان اور اپنے وجود کو کھو دیتے ہیں۔ اور اگر ہم نے محبت کو شعوری طور پر اپنایا تو شاید ہم وہ آدمی بن سکیں جس کی موجودگی ایک نغمہ ہو، ایک امکان ہو ایک مکمل انسان۔
خوشی محض ایک کیفیت نہیں، ایک آزادی کا اعلان ہے اور اس آزادی کے سب سے بڑے دشمن ہم خود ہوتے ہیں۔
ہم میں ایک دوسرا وجود سانس لیتا ہے ایک ایسا وجود جو ہمارے اندر چھپی سماجی آنکھ کا نمائندہ ہے وہ سماج جو بے ساختگی سے خوف کھاتا ہے جو مسکراہٹ میں بدتمیزی ڈھونڈتا ہے جو ہر بےباک جذبے میں لغزش کی بو سونگھتا ہے۔
یہ داخلی محافظ، جو ہماری ہر تنہائی میں دربان بن کر کھڑا ہے نہ صرف ہمیں ڈانٹتا اور ملامت کرتا ہے بلکہ ہمیں اپنے ہی فطری جذبات سے بیگانہ کر دیتا ہے۔
ہم اپنی فطرت کے معصوم پھولوں کو خود اپنے ہاتھوں سے مسلتے ہیں اور جب کبھی کسی خوشی کی کونپل پھوٹنے لگتی ہے تو یہی اندرونی نگران ہمیں گناہ کا طعنہ دیتا ہے، ہمیں گلٹ کی زنجیروں میں جکڑ دیتا ہے۔
یوں ہم نہ خود جیتے ہیں نہ جینے دیتے ہیں۔ ہم اپنے لیے بھی ایک اذیت گاہ تراشتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کے لیے بھی۔
اصلی خوشی تبھی دسترس میں آتی ہے جب ہم اس دوسرے وجود کی زنجیریں توڑ کر، اپنی معصومیت کو، اپنی بے ساختگی کو، بغیر کسی ناصح کی آنکھ کے آزاد ہونے کی اجازت دیں۔ ورنہ ساری زندگی ایک غیر مرئی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے رہنے کا نام بن جاتی ہے — جہاں ہر لمحہ جرم ثابت ہوتا ہے ہر مسکراہٹ ایک معافی مانگتی ہے۔
کیا زندگی اور زندہ رہنا اسی ادھیڑ بن اور اسی گو مگو کا نام ہے؟
آپ سب کے لئے، میری طرف سے،
فوڈ فار تھاٹ!