تمنا کے اَکھوے
(سلطان ناصر)
نبض کی شال کانٹوں کی جھاڑی سے اُلجھی رہی
زخم رِستا رہا
دل کا طبلہ کسی بَین کی لَے پہ بجتا رہا
بے قراری کی دیمک، بدن پیڑ کو چاٹتی
اور کسک کی درانتی تمنا کے نوخیز اکھووں کے سر کاٹتی رہ گئی
تم نے مُڑ کر بھی دیکھا نہیں!
کیا خبر تم کبھی مُڑ کے دیکھو، نہ دیکھو!
جو دیکھو
تو اُکھڑی ہُوئی نبض کو اپنی سانسوں کی نرمی سے ہموار کر دو
نگاہوں کے دیپک سے بجھتی ہوئی شام کی تان روشن کرو
اور کھُلے زخم، اَبرو اِشارے سے سی دو
(یہ اَبرو، یہ اعراب خطِّ عرب کے
جو دھیمی سی جنبش سے معنی بدل دیں)
نہ دیکھو
تو بڑھتی ہُوئی بے قراری کو دیوارِ جاں چاٹنے دو
کہ یوں بھی تو اک روز دیوار گِر جائے گی
پیڑ ڈھے جائے گا
کیا خبر تم کبھی مُڑ کے دیکھو، نہ دیکھو!
مگر یہ تمنّا کے اکھوے تو خود رَو نہیں
خود تمہارے اُگائے ہُوئے ہیں
کسک کی درانتی سے اِن ننھے اَکھووں کے کٹتے سمے
بے نیازانہ بڑھ جانے والے
جڑیں اِن کی پاتال تک جا چکیں
دیر ہو بھی چکی
متعلقہ
Who is orchestrating these attacks, Reviewed by, Aiza Rabani, UK
پیرو چک یا کہیں بھی، یہ بربریت بند ہونی چاہئے۔ از، مونا فاروق
گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کر لیتے ، از ، طاہر احمد بھٹی