انتخابات سے جڑی یادوں میں سب سے پہلی یاد 1977 کی ہے ۔ایک جیالا کلاس فیلو مجھے پیپلز پارٹی کا جھنڈا دلانے لے گیا تھا اور گیارہ ایریے کی لمبی دیوار پر ایک بہت لمبی ہل کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ جھنڈا دینے والوں نے مشکوک سمجھ کر مجھ سے سوال جواب کیے۔پیپلز پارٹی کا زور تھا۔بھٹو کے پاس اقتدار بھی تھا اور اختیار بھی۔ دوسری طرف پاکستان قومی اتحاد یعنی سب کے سب ___ نو ستارے چاندی دے — سارے پتر گاندھی دے۔ الیکشن ڈے پر ابو کے ساتھ گھومتے ہوئے ایک سے دوسرا پولنگ سٹیشن، ووٹ نہیں مل رہا تھا ۔ پتہ نہیں پھر کیا ہوا بے نیل و مرام ، مگر ابو نے ووٹ ڈھونڈنے کی پوری کوشش کی۔ بزرگوں کا حکم یہی تھا کہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا جائے مگر شاید پیپلز پارٹی ہی لینا نہیں چاہتی تھی۔پھر ٹی_ وی پر نتائج کے ساتھ فلم چل رہی تھی شاید ” من کی جیت” ۔ بیچ میں نتیجہ سکرین پر لکھا آتا ” قومی اتحاد والے جیت رہے ہیں” یا “پیپلز پارٹی والے جیت رہے ہیں ” مگر ہماری اور دیگر آڈیینز کی جن میں گلی کی جملہ مائیں شامل تھیں توجہ فلم کی طرف ہی مبذول رہتی ۔ لیکن یہ تو دوسرا دن تھا اور دن کا وقت تھا۔پھر کیا ہوا کچھ یاد نہیں نتیجہ آیا کیا نتیجہ آیا ہاں البتہ کھنچی ہوئی آنکھوں اور تنی ہوئی مونچھوں والا ایک شخص پتہ نہیں کہاں سے آن ٹپکااور چبا چبا کر باتیں کرتا ٹی _ وی پر آنے لگا۔پھر ایک دن گلی میں اخبار گردش کرنے لگی ، ہمارے پڑوسی “ہندوستانی” ( اس زمانے میں 1947 کے اردو سپیکنگ مہاجرین کے لیے یہی لفظ مستعمل تھا) سب کو خوشی خوشی پڑھ کر سنانے اور سنا سنا کر دکھانے لگے موٹی شہ سرخی پر میری نظر پڑی دو لفظ دکھائی دیے اور حافظے پر نقش ہو گئے ایک بھٹو اور دوسرا پھانسی۔ہندوستانیوں کی خوشی کا اندازہ مجھے اس طرح تھا کہ نو ستاروں میں سے کسی ایک کے ساتھ وابستہ تھے مگر مجھے حیرت بھی ہوتی تھی کہ ان ” ترقی پسندوں” کو تو بھٹو کے ساتھ ہونا چاہئیے۔ مجھے ذاتی طور پر بھٹو کے ساتھ تھوڑی سی ہمدردی ضرور محسوس ہوئی مگر حادثہ تھا گذر گیا اور جلد ہی ہر طرف شانتی پھیل گئی لوگ ٹی_ وی دیکھنے لگے ۔شام ڈھلتے ہی ہر طرف ٹی وی کا طلسم چھا جاتا ایک سے ایک شاہکار ڈرامہ، البتہ خبر نامہ نہایت سنجیدہ اور رعب دار ہوتا۔سب سے پہلی خبر اسی ترچھی آنکھوں اور تیکھی مونچھوں والے کی ہوتی۔ آہستہ آہستہ سب نے اسے اپنی زندگی کا لازمی حصہ مان لیا کہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔( جب ڈرامہ ختم ہو جاتا اور بچوں و خواتین کی بِھیڑ چَھٹ جاتی تو بزرگ حضرات سنجیدہ صورت بنائے بظاہر بڑے غور سے خبر نامہ دیکھتے جو اربابِ اختیار کی دن بھر کی مصروفیات کی ایک غایت درجہ مثبت رپورٹ کے سوا اور کچھ نہ ہوتا مونچھوں والے کے بعد درجہ بدرجہ صوبائی گورنروں، کابینہ کے وزیروں، مشیروں اور شوریٰ کے معزز اراکین کی خبریں ہوتیں)پھر 1985 آیا —————مگر اس سے پہلے کچھ اور بھی آیا تھا۔ خبروں اور اخباروں کی حد تک تو کچھ پتہ نہیں البتہ گراؤنڈ پر ایک بھر پور سرگرمی برپا ہوئی اور شاید ہی کوئی بندہ بشر اس میں شمولیت سے محروم رہا ہو۔ہماری گلی کی نُکڑ ایسی سماجی، ثقافتی اور عمومی گہما گہمی کا مرکز ہوا کرتی۔ یہ ” چھوٹے ممبروں” کے الیکشن تھے۔ڈپو والا مجید بھی کھڑا تھا پوسٹر چھپے تھے ” مجید احمد خان” ہمارے لیے وہ اپنی ماؤں کے نقشِ سخن پر چلتے ہوئے “ڈپو والا مجیدا” ہی تھا یاایک پرانا سوزوکی موٹر سائیکل اس کی پہچان تھا جسے لڑکوں نے چاند گاڑی کا نام دے رکھا تھا۔ڈپو سامنے والی لائن کے کونے والے کوارٹر میں قائم تھاجس کے دروازے پر کارڈ ہاتھوں میں لیے حصولِ راشن کے آرزو مندوں کی قطار جب کئی بل کھا جاتی اور قطار میں کھڑے عوام الناس کا پیمانہِ صبر چھلکنے کو ہوتا تو دور سے آتی چاند گاڑی کی مسحور کن آواز تھکان ختم کر کے ان کے ہاتھ پاؤں میں نئی توانائی بھر دیتی۔ موٹر سائیکل کو چاند گاڑی کا لقب اس کی رفتار کے پیشِ نظر دیا گیا تھا جو کسی صورت پندرہ بیس کلومیٹر فی گھنٹہ سے تجاوز نہ کرتی مگر مجید یا مجیدا بلا کا سنجیدہ کردار تھا ، چوڑا چکلا سینہ ، یو پی کا پاجامہ زیبِ تن کیے رکھتا۔اس نے کبھی لڑکوں کی پھبتیوں کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا تھا اور نہ کبھی میں نے اسے کسی سے فالتو بات کرتے دیکھا تھا۔ اسکے آنے پر ملازم ڈپو کا دروازہ کھول دیتا اور پبلک یوں دھڑا دھڑ اندر گھستی جیسے باہر بم پھٹنے والا ہو۔وہ اندر جا کر اپنی میز کرسی سنبھالتا اور راشن کی فراہمی شروع ہو جاتی۔ گھنٹے بھر سے قطار میں کھڑے سرکاری ملازم افرادِ خانہ کی تعداد کے موافق آٹا، چینی اور گھی کی معین مقدار مروجہ نرخ پرحاصل کر کے خوشی خوشی گھر کی راہ لیتے۔۔ تو پوسٹر پر جب مجید احمد خان نام چھپ کر آیا اور جا بجا دیواروں پر یہ پوسٹر چسپاں ہو گئے تو نام کی یہ طوالت مجھے بہت کھٹکی اور یوں لگا جیسے مجید کے ادھورے پن کو مدنظر رکھ کر محض اس میں وزن پیدا کرنے کے لیے احمد اور خان کے اضافی الفاظ ٹانک دیے گئے ہیں۔”ہندوستانیوں”کے پاس نام کے ساتھ لگانے کے لیے زیادہ سابقے لاحقے نہیں تھے،نہ بے چاروں کا کوئی گاؤں نہ ٹھوہر نہ ٹھکانہ، سب بچے ایک دوسرے کے گاؤں کا نام پوچھتے تو ان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ ہوتا ، پہلے تو چپ رہ جاتے پھر آہستہ سے منمناتے “کراچی” اور سب کی ہنسی چھوٹ جاتی مگر اس سوال کے علاوہ سارے سوالوں کے جواب ان کے پاس تھے اور بہت سے ایسے سوال بھی جن کے جواب دوسروں کے پاس نہیں تھے یہاں آ کر وہ بے چارے ہو جاتے، دیہاتوں سے امڈے ہوئے ڈنگر جنہیں اردو بولتے موت آتی تھی۔پنجابی اور ہندوستانی کا ترازو ہر وقت جھولتا رہتا ،تو کون؟ پنجابی یا ہندوستانی ؟ جواب پنجابی ہوا توپلڑا طمانیت سے جھک گیا ورنہ بے وزن ہوا میں معلق رہ گیا۔ ان دنوں کی ایک اور یاد دربدر ووٹ مانگنے کی مہم پر روانگی کی ہے جب گلی محلے کے سارے معتبر جن میں چوہدری چاچا پیش پیش تھا مجید ڈپو والے کواپنے حصارمیں لیے کوارٹر کوارٹر دروازے کھٹکھٹانے نکلے۔ہم بچے بھی فاصلہ رکھ کر مگر ان پر نظر ٹکائے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔پھر جو کارنر میٹنگیں ہوتیں ان کی رونق بچوں کے دم سے ہی تھی۔وہاں ہمیں بیٹھنے کو کرسی بھی مل جاتی جو ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔یہ جلسیاں بڑے دوستانہ ماحول میں ارد گرد کی گلیوں کے دیکھے بھالے چہروں کے جلو میں برپا ہوتیں، جگہ وہی گلی کی نکڑ جو دراصل تین ایریوں کی حدِ٘ اتصال بھی تھی اور جہاں ہاشم بھائی کا کھوکھا اور اکرمے نائی کی میز کرسی ہوا کرتی تھی۔ایک ڈائس کہیں سے مہی٘ا کر لیا گیا تھا،جس کا جی چاہے تقریر کے لیے آ کھڑا ہو ۔ انہی دنوں لڈو نام کا ایک سیاسی کارکن ابھر کر سامنے آیا۔ یہ ایک منحنی، لاغر ، نحیف و نزار ، ہڈیوں کا ڈھانچہ قسم کا کردار تھا جسے نہ بچہ کہہ سکتے تھے ،نہ لڑکا اور نہ جوان ۔آنکھیں نکلی ہوئیں ، ہڈیوں کے اوپر کھال کسی ہوئی، دانت بھی سارے کے سارے نمایاں ، کرتے پاجامے کے نیچے ہوائی چپل۔ پتہ نہیں کہاں رہتا تھا مگر جلسہ گاہ میں ہر وقت موجود رہتا خاص طور پر جب سے اس نے ایک گرما گرم تقریر کر ڈالی تھی اسکی سٹیج ویلیو میں یکایک ہزار گنا اضافہ ہو گیا تھا۔ تقریر کا لبِ لباب جو بھی تھا، مطلب کچھ تھا یا نہیں مگر شعلہ بیانی غضب کی تھی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب وہ لڈوِ محض سے لڈو میاں کے منصب پر فائز ہو گیا۔ دیگر جوشیلے ورکروں نے اسے کندھوں پر اٹھا لیا مگر عین اسی وقت ایک کوندا لپکا ، مجھ پر منکشف ہوا کہ یہ واہ واہ ، یہ مان سمان کسی کام کا نہیں ، اس سے لڈو میاں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا ۔ لوگوں کے کندھوں پر سوار بے چارہ بے وقوف نہ جانے کس بات پر خوش ہے اور وہ جو اسے اٹھائے گلے پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہیں کس غلط فہمی کا شکار ہیں ؟ یہ بنا سوچے تقریریں کرنا نعرے لگانا کس لیے ہے ، کونسی تصویر انھیں دکھائی دیتی ہے ؟ کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا یہ ساری مشق ادھوری ہے یہ نعرے یہ جلسے آدھی تصویر ہے۔ پھر بھی یہ بے وقوف آدھی تصویر میں ہی رنگ بھرے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں تصویر جب بنے گی تو پوری ہو گی۔ باقی آدھا حصہ جو ان کے تصرف میں نہیں ہے خود بخود بن جائے گا یا شاید ان کو بھی پتہ ہے کہ یہ صرف آدھی تصویر میں رنگ بھرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ ( جاری ہے)
علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات
متعلقہ
عجیب مافوق سلسلہ تھا۔۔۔از ، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
غزل ، از ، طاہر احمد بھٹی
Are Wills really Free?