گیارہ اگست کو پوری قوم نے قائد اعظم کی اس تقریر کی یاد میں دن منایا جس میں آپ نے فرمایا تھا آپ آزاد ہیں۔ آپ اپنے گرجوں مندروں،مساجد یا جو بھی آپ کی عبادت کی جگہ ہے وہاں جانے کے لئے آزاد ہیں۔ آپ کا عقیدہ یا مسلک کیا ہے حکومت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ لکھنے والوں نے اس تقریر پر کالم لکھے۔ جنہیں میڈیا پر بولنے کی آزادی ہے انہوں نے اس تقریر کے مندرجات کے بارے میں اچھی اچھی باتیں کہیں۔ سیاستدانوں نے بیانات دے کر اپنے عزم کا اعلان کیا کہ ہم قائد کے ارشادات کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
دو دن رہ گئے ہیں۔ دو روز بعد پوری قوم نے یوم آزادی منانا ہے۔ وطن عزیز کی آزادی کو 75 سال ہو رہے ہیں۔ 12 اگست کی صبح کو ربوہ کے ایک 62 سال کے شہری نصیر احمد صاحب ربوہ کے بس اڈے پر کھڑے تھے۔ اسی اڈے کے قریب قبرستان بھی ہے۔ انہیں یہ علم نہیں تھا کہ وہ جلد اپنے فوت شدہ عزیزوں سے ملنے والے ہیں۔ اس پر مدرسہ کا ایک فارغ التحصیل شخص حافظ شہزاد حسن سیالوی ان کے سامنے آیا اور مطالبہ کیا کہ لبیک یا رسول اللہ اورتحریک لبیک کے بانی خادم حسین رضوی صاحب کے حق میں نعرے لگائو۔ یقینی طور پر انہوں نے بے یقینی کے عالم میں اس شخص کو دیکھا ہوگا اور یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوں گے کہ یہ کون ہے اور کیا مطالبہ کر رہا ہے؟ بیشتر اس کے کہ نصیر احمد صاحب کچھ کہہ پاتے اس شخص نے چاقو سے پہ در پہ وار کر کے نصیر احمد صاحب کو قتل کر دیا۔ یہ بہیمانہ قتل کرتے ہوئے یہ شخص نعرے مار رہا تھا مَنْ سَبَّ نَبِيَّا فَاقْتُلُوْه یعنی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے اسے قتل کردو۔
اس شخص اور نصیر احمد صاحب کی کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ کس نے یہ توہین کی؟ کب کی؟ کس نے فرد جرم عائد کی کہ خدانخواستہ ایسی کوئی توہین کی گئی ہے؟ کس نے فیصلہ کیا کہ ایسا کوئی فعل سرزد ہوا ہے۔ ان تفصیلات میں جانے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ بس ایک الزام لگایا اور موقع پر قتل کر دیا۔ نصیر احمد صاحب کی بیوہ اور ان کی تین بیٹیوں کے ان سوالات کا جواب کون دے گا؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان کے شوہر اور ان کے باپ کو کس پاداش میں دن دیہاڑے قتل کیا گیا۔ اس حرکت کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ توہین مذہب کا الزام لگا کر ملک میں فسادات کا ماحول پیدا کیا جائے۔ ور اس وقت جب کہ پاکستان ایک شدید ترین بحران سے گذر رہا ہے صرف ملک کے دشمن ہی یہ خواہش کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں فسادات شروع ہو جائیں۔
یہ کوئی انفرادی واقعہ نہیں ہے جس میں ایک احمدی کو مذہبی اختلاف کی وجہ سے قتل کیا گیا ہو۔ ملک میں ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے کہ اس بات کو ایک معمول سمجھ لیا گیا ہے کہ جس سے کوئی اختلاف ہو یا کوئی حساب برابر کرنا ہو اس پر توہین مذہب کا الزام لگا کر ایف آئی آر درج کرا دو یا اس سے بھی بڑھ کر خود مدعی پولیس وکیل اور عدالت کا کام اپنے ہاتھ میں لے کر اس پر حملہ کر دو اور یہ عذر پیش کر دو کہ میرے نزدیک یہ توہین مذہب کا مرتکب ہوا تھا۔ پولیس کے بھی ہاتھ پائوں پھول جائیں گے۔ کوئی وکیل مقدمہ لڑنے کو تیار نہیں ہوگا۔ کبھی کوئی جج سماعت سے معذرت کرے گا یا ایک کے بعد دوسری تاریخ دیتا جائے گا۔
کیا یہ رجحان بڑھ رہا ہے یا اس میں کمی آ رہی ہے؟ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے 2021 کے بارے میں جو رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق یہ رجحان بڑھ رہا ہے۔ اور سب صوبوں کی نسبت پنجاب میں سب سے زیادہ توہین مذہب کے مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں۔ گذشتہ سال کے دوران پنجاب میں قائم ہونے والے ایسے مقدمات کی تعداد 426 تھی۔ سندھ میں یہ تعداد 113، خیبر پختون خواہ میں 33، بلوچستان میں 5، اسلام آباد میں 8 تھی۔ یہ اعدادو شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس قسم کے مقدمات سب سے زائد پنجاب میں قائم کئے جا رہے ہیں۔ اور بد قسمتی سے نصیر احمد صاحب کا قتل بھی صوبہ پنجاب میں ہوا ہے۔
یہ سلسلہ صرف ایف آئی آر کٹوانے تک محدود نہیں ہے۔ اس قسم کے الزامات لگانے والے اپنے آپ کو ہر قسم کے قانون سے بالا ترسمجھتے ہیں۔ گذشتہ سال چارسدہ میں ایک شخص پر قرآن مجید کے اوراق جلانے کا الزام تھا چنانچہ اسے گرفتار کر لیا گیا۔ مشتعل ہجوم نے پولیس سٹیشن کا محاصرہ کر کے مطالبہ کیا کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کرو۔ جب انکار کیا گیا تو اس ہجوم نے پولیس سٹیشن کو آگ لگا دی۔ اور محض 8 سال کے ہندو بچے پر بھی اس قسم کا الزام لگا کر پرچہ کٹوایا گیا۔ اس پس منظر میں مناسب ہوگا اگر کم از کم صوبہ پنجاب کے نومنتخب وزیر اعلیٰ اس مسئلہ کے بارے میں اپنی حکومت کا موقف بیان کریں کہ پنجاب حکومت اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لئے کیا اقدامات اٹھائے گی۔ (اللہ اللہ! محترم الم نگار بتوں سے کلام کی توقع باندھتے ہیں۔ بھائی، پنجاب کا موجودہ عدالتی وزیر اعلیٰ مذہبی ناخواندگی اور غیر رواداری کا نمونہ ہے۔ و-مسعود)
اگر صاحبان اقتدار کا خیال ہے کہ یہ سلسلہ صرف احمدیوں تک محدود رہے گا یا یہ کہ صرف کچھ مسیحی احباب اس قسم کے الزامات کا نشانہ بنیں گے تو بہتر ہو گا کہ اس غلط فہمی کو ترک کر دیا جائے۔ گذشتہ سال جن شہریوں پر اس قسم کے مقدمات قائم کئے گئے ان میں سے پچاس فیصد سے زائد سنیوں کے مختلف مسالک یا شیعہ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ اگر سختی سے اس قسم کے واقعات کی روک تھام نہ کی گئی تو کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں رہے گا۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ قاتل نے پہلے مقتول سے مطالبہ کیا کہ خادم حسین رضوی صاحب کے حق میں نعرہ لگائو اور پھر چاقو کے وار شروع کر دیئے۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قاتل کی ہمدردیاں تحریک لبیک کے ساتھ ہیں۔ جیسا کہ خادم حسین رضوی صاحب نے اپنی تقاریر میں بار بار ذکر کرتے رہے تھے تحریک لبیک پر نظریاتی طور پر سب سے زیادہ اثر احمد رضا خان صاحب بریلوی کا ہے۔ اور کوئی بھی انٹرنیٹ پر جا کر دیکھ سکتا ہے کہ احمد رضا خان بریلوی صاحب نے اپنی کتب حسام الحرمین اور رد الرفضہ میں دیوبندی وہابی اور شیعہ احباب پر بالکل ویسے ہی فتوے لگائے گئے ہیں جیسا کہ احمدیوں پر لگائے گئے تھے۔ ان حقائق کی موجودگی میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سلسلہ صرف احمدیوں تک محدود رہے گا اور وطن عزیز کی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ ایسے سلسلے کبھی کسی ایک مسلک تک محدود نہیں رہتے۔ آخر کار یہ آگ سارے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
آج سے کئی دہائیاں قبل ڈاکٹر عبد الحکیم صاحب نے ایک کتاب ” اقبال اور ملا” تحریر فرمائی تھی۔ اس کے ایک اقتباس پر یہ کالم ختم کرتا ہوں
“پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے مجھ سے حال ہی میں بیان کیا کہ ایک ملائے اعظم اور عالم مقتدر سے جو کچھ عرصہ ہوا بہت تذبذب اور سوچ بچار کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آ گئے ہیں۔ میں نے ایک اسلامی فرقہ کے متعلق دریافت کیا انہوں نے فتویٰ دیا ان میں جو غالی ہیں وہ واجب القتل ہیں اور جو غالی نہیں ہیں وہ واجب التعزیر ہیں۔ ایک فرقہ کے متعلق پوچھا جس میں کروڑ پتی تاجر بہت ہیں۔ فرمایا وہ سب واجب القتل ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہیں تو وہ بھی واجب القتل مگر اس وقت علی الاعلان کہنے کی بات نہیں۔ موقع آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ انہیں میں سے ایک دوسرے سربراہ عالم دین نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے جہاد فی سبیل اللہ ایک فرقے کے خلاف شروع کیا ہے۔ اس میں کامیابی کے بعد انشاء اللہ دوسروں کی خبر لی جائے گی۔ “
پوری قوم کو یوم آزادی مبارک ہو۔ رہا نصیر احمد صاحب کا خون تو فیض نے کیا خوب کہا تھا
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہو
متعلقہ
عجیب مافوق سلسلہ تھا۔۔۔از ، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
غزل ، از ، طاہر احمد بھٹی
Are Wills really Free?