آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

سوشل میڈیا کے “افس” اور “بٹس” از شائزہ انور

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

کبھی سٹوریاں صرف تصویریں ہوتی تھیں — کچھ یادیں، کچھ سفرنامے، یا زیادہ سے زیادہ بریانی کی پلیٹ۔ مگر اب سٹوری وہ تصویری غلاظت بن چکی ہے جو نہ ادب ہے، نہ آرٹ، نہ جمال، نہ خیال، بلکہ صرف نمود و نمائشِ نفس ہے، وہ بھی برہنہ۔

اب فیس بک کی سکرین پر انگلی چلاتے جائیے، ہر دوسری سٹوری میں ایک ایسی “آنٹی نما ماڈل” یا “فٹنس فیشن والی پینٹ میں پھنسی جسمانیت” دکھائی دے گی جو نہ کوئی پیغام دے رہی ہوتی ہے، نہ کوئی مقصد۔ بس کپڑوں سے آزادی کا اعلان اور ذہن سے غلامی کا ثبوت پیش کر رہی ہوتی ہے۔

یہ وہ دور ہے جہاں سوشل میڈیا کے مجاہدین کپڑوں کو زنجیر سمجھ کر اتار پھینکتے ہیں، مگر عقل پر بندھی پٹیوں کو زیور سمجھ کر سنبھالے رکھتے ہیں۔ ان کی سٹوریاں کسی آرٹ گیلری کی پینٹنگز نہیں، بلکہ اخلاقیات کے کفن پر پڑی ڈیجیٹل تھوک ہے۔

بعض فیس بکی دانشور ان تصویری فحاشیوں کے نیچے کوئی فلسفیانہ کوٹ بھی لکھ دیتے ہیں، جیسے:
“آرٹ کو سمجھنے کے لیے ذہن صاف ہونا چاہیے”
یا
“حسن وہ جو نظر میں اتر جائے”
حالانکہ ان کا ذہن فیس بک کی سرچ ہسٹری میں دفن، اور حسن صرف “view count” کی بھوک میں مبتلا ہوتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ یہ سٹوریاں نہ کسی نظریے کی نمائندگی کرتی ہیں، نہ کسی ثقافت کی۔ یہ بس بے مقصد جسموں کی پرچون دکانیں ہیں، جہاں ہر تصویر چیخ چیخ کر کہتی ہے: “مجھے مت دیکھو، پھر بھی دیکھو!”

اے ننگے پن کے داعیو! اگر واقعی کچھ دکھانا ہے تو کردار دکھاؤ، بصیرت دکھاؤ، زبان کا حسن، ذہن کی تہذیب اور فکر کی جمالیات دکھاؤ — ورنہ یہ سٹوریاں نہیں، ڈیجیٹل تھرڈ کلاس مووی کے پوسٹر بن کر رہ جائیں گی، جنہیں کوئی پڑھتا نہیں، بس دیکھ کر شرماتا ہے… یا اگنور کر کے بلاک کرتا ہے۔