آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

طاہر احمد بھٹی بنام ظفرمعراج

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

،ظفر معراج صاحب

پنگ پانگ کی گیند سے مرغی کا بچہ نہیں نکل سکتا بھلے آپ اسے بیس دن تک جاوید چوھدری صاحب کی سٹڈی میں رکھ دیں۔
مسئلہ یہ ھے کہ۔۔۔
صف زاھداں ھے سو بے یقیں صف میکشاں ھے سو بے چراغ
نہ وہ صبح ورد و وضو کی ھے نہ وہ شام جام و سبو کی ھے
ھماری اجتماعی بد قسمتی کے اسباب میں سے ایک یہ بھی ھے کہ ھر طرف کڑوے دودھ والے آک کے پودے ھیں جن میں کہیں اگر ھرنولے کا بوٹا اگا ھو تو ھمارے لئے وھی پردھان ھے۔ لکھ کون رھا ھے؟
مختار مسعود اور بوڑھے ھو گئے، مشتاق یوسفی صاحب پہ بے دلی طاری ھے۔
سلیم کوثر بولنے سے معذور و لا چار۔۔۔۔۔تو پھر یہی ھو گا۔آپ کو اور آنے والی نسلوں کو ادب، تاریخ اور تنقید اب جاوید چوھدری، سلیم صافی یا پھر حامد میر سے ھی پڑھنا ھے۔ ان لوگوں نے مولوی کی طرح اپنی لاوڈ سپیکر writt قائم کر لی ھوئی ھے اب ان کو چپ کر کے سنیں اور سنتیں پڑھ کے چپ چاپ گھر چلے جایا کریں.
جس طرح بعض بیو رو کریٹس کو شوق ھوتا ھے کہ وہ میڈیا کی گدی بھی سنبھال لیں اسی طرح بعض میڈیا کے لوگ خواری اور تذلیل کا ذائقہ چکھے بغیر ادب اور جمالیات پر محاکمہ کرنے کی حماقت کر بیٹھتے ھیں۔لیکن سیانے بھی لوگ ھیں مثلا” میں نے کبھی نجم سیٹھی صاحب کو ادب بھگارتے نہیں سنا۔
نہ ھی ڈاکٹر شاھد مسعود کو۔۔ایاز امیر بہت شستہ ذوق رکھنے کے باوجود گیلی منڈیر پر پاوءں نہیں رکھتے۔۔۔۔۔۔و علی ھذ القیاس
اس لیئے عام طور پر ادبی اور جمالیاتی ذوق عام کرنے کی ضرورت ھے کہ لوگ گڑ گھوٹے ھوئے شیرے کو شھد کے طور پر خریدنے سے اپنی ذاتی پہچان کی بنیاد پر انکار کر دیں اور دوسرا اخبارات ادب کے ڈیلر ھونے کی بجائے ادب پرور کا کردار ادا کریں۔
اگر آپ ظفر معراج نہ ھوتے تو ایسا اچھا جواب دنیا اخبار نے اتنی اچھی جگہ نہیں چھا پنا تھا!
ایسی کئی کمزوریاں ھیں جو معاشروں میں رائج ھو جائیں تو منٹو ھی نہیں علم و فضل کی ھر صنف کنارا کر جاتی ھے۔
آخر پہ عرض ھے کہ نمل یونیورسٹی میں ھمارے داخلے کے وقت ایک جارحانہ انٹرویو پینل نے ھم سے پوچھا کہ حبیب جالب کو آپ کہاں رکھتے ھیں؟
ھم نے اسی رو میں جواب دیا کہ۔
“وہ میری اور آپ کی ریٹنگ کی مدد کے بغیر ھی اردو ادب کی تاریخ میں جالب کے طور پر خود کو منوا چکے ھیں۔”
مگر ھمارے استاد یاسر عرافات تھے جو اس جواب کو خندہ پیشانی سے پی گئے اور ھمیں داخلہ مل گیا۔
منٹو اس فلم ، فلم کے تماش بینوں، سوشل میڈیا کی ھڑبونگ اور جاوید چوھدری صاحب کے کالم کے بغیر ھی اردو ادب میں اپنا مقام طے کروا چکا ھے۔۔۔۔۔
!!اور قاتل کی سزا یہ بھی کہ میں زندہ ھوں۔۔۔