آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

سفیر فرانس کے نام کھلا خط

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

بخدمت عزت مآب  جناب سفیر صاحب جمہوریہ فرانس۔ اسلام آباد

کسی اور ذریعہ سے آپ تک رسائی  میری جیسے ایک معمولی انسان کے لئے آسان نہیں لہذا “ہم سب” کے  واسطہ سے   اس توقع کے ساتھ کہ  کسی ذریعہ سے   یہ مکتوب پا کر    آپ ٹھنڈے دِل سے پڑھ کر اس کے مندرجات کو درست  سمجھیں تو  حکومت فرانس کو عاجزانہ رائے سے آگاہ کریں  تاکہ وہ  اپنے اقدامات  پر نظر ثانی کرے۔ اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کی روک تھام ہو سکے۔

فرانس میں ہونے والےتازہ واقعات نے نتیجہ میں پیدا  ہونے والی کشیدگی  دنیا  کے دوسرے مسائل کے حل کی راہ میں بڑی روکاوٹ ہی  ثابت نہیں   ہو رہی بلکہ خود ایک بہت بڑے مسئلے سے بنی نوع کو دو چار کرنے والی ہے۔ فرانس  کا شمار   مہذب  ممالک میں کیا جاتا ہے اور اس کے دستور  کو دنیا بھر میں احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ اس دستور میں حقوق  “آزادی رائے”  اور” آزادیٔ اظہار رائے  ” کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور اس حق کی ہر معقول انسان تکریم کر تاہے۔

آپ کے ملک جمہوریہ فرانس  میں مسلمانوں کے  لئے مقدس ترین ہستی  حضرت خاتَم النبیین محمد ﷺ  کی ذات با برکات پر “آرٹ “کے نام پر آزادیٔ  اظہار  رائے کا حق استعمال کرنے کے بہانے  جو کارٹون بنائے اور شائع کیئے گئے ہیں۔  وہ  نہ صرف دستور  جمہوریہ فرانس   بلکہ دیگر جمہوری ممالک کے دساتیر اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے چارٹر کی بھی  سراسر خلاف ورزی ہے۔ 

ان کارٹونوں کی اشاعت پر مسلمانوں کی طرف سے    صحیح یا غلط  طرح سے ردِ عمل   آیا  اور آ رہا ہے ۔ دوسری جانب    ردِ عمل کے طور پر فریقِ ثالث یعنی  حکومتِ فرانس نے  ان کارٹونوں کی حکومتی سر پرستی میں اشاعت  کی صورت میں   جوکارنامہ انجام دیا ہے   ایک جمہوری ملک کے سیاسی ارتقاء  کا رُخ  زوال کی طرف موڑنے کا باعث بنا ہے۔ رُخ کے  اس مُڑجانے  سے   آگاہ کرنے کی غرض سے      حکومت ِ جمہوریہ فرانس   کو آپ کی وساطت سے      توجہ دلانا  مقصود ہے  لہذا عرض ہے کہ:۔

۔1۔  سن 1881 عیسوی  سے  معتبر ۔valid۔ دستور جمہوریہ  فرانس میں بیان کردہ “آزادیٔ اظہارِ رائے” پر پانچ پابندیاں ہیں۔ اور انکی سزائیں مقرر ہیں جن میں تیسری پابندی میں  مذہبی توہین مذکور ہے۔ اور ابھی گزشتہ سال میں بنائے گئے قانون میں  اس پابندی  کا دائرہ “ڈیجٹل آزادیٔ اظہار رائے” تک وسیع کرتے ہوئے نامناسب مواد کو رپورٹ کیئے جانے کے بعد  ایک  سے  چوبیس گھنٹے کے اندر میڈیا کمپنیوں انساگرام۔ فیس بک۔ وغیرھم کو نہ ہٹانے کی صورت میں متعلقہ کمپنی کی چار فیصد تک آمد   جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔  اس   پسِ منظر کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ قانون سازوں نے  “اظہار ِآزادیٔ رائے ” کو بے لگام نہیں چھوڑا بلکہ بعض  دیواریں  اس بنیادی حق کی ہی حفاظت کے لئے   ہی کھڑی کی گئی ہیں۔

۔2۔ “آزادیٔ اظہار رائے” کاحق کا درجہ بڑی دانشمندی سے قائم کیا  گیا ہے اور اس حق کی حفاظت ہر ریاست  اور ہر شہری کا فرض ہے اور اس حق کو محدود کرنے کے لئے کوئی ریاست متحرک ہو یا اس حق کے غلط استعمال سے ۔کوئی شہری یا طبقہ اس  حق   کی تنقیض  کرے۔  تو اس کا محاسبہ  کرنا ایک    فریضہ ہے ۔

۔3۔یہ حق  جسے عمرانی معاہدہ کی ابتدائی  شقوں میں شامل کیا گیا ہے اس کا مقصد بنی نوع کی فلاح اور ایک ریاست میں   نسل ۔ رنگ۔ مذہب وغیرہ کی تفریق  کے بغیر پُر امن  معاشرہ کا قیام ہے۔   درست طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس حق کے صحیح استعمال کے نتیجہ میں  ہی یورپ تہذیب یافتہ خطہ قرار پایا ہے  اور صحیح استعمال سے ہی تہذیب یافتہ رہ سکتا ہے۔

۔4۔  ماضی قریب میں اس حق کے ناجائز  استعمال سے کئی تنازعات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان میں سے اکثر  تو حکومتوں کی طرف سے تحدیدی قانون سازی  کی  بدولت اسمبلیوں اور ہیومن رائیٹس کے علم برداروں  کے  درمیان تھے۔       حقِ ”  آزادی ٔ اظہار  رائے” کی آڑ میں کارٹونوں کی اشاعت  نے اب  جس  تنازعہ  کو جنم دیا ہے    اس نے  بین الاقوامی سطح پر سیاسی اور مسلمانوں اور ہیومن رائیٹس کے پرچاروں کے درمیان ایک  میدان جنگ سجا دیا ہے۔  بد قسمتی سے حکومتِ فرانس اس تنازعہ میں جارح فریق کی حمایت میں ریاستی   غیر جانبداری کے اپنے بنیادی اصولوں سے انحراف کرنے لگی ہے ۔

۔5۔کارٹون “آزادی اظہار رائے” کی ذیل میں نہیں آتے۔

  (ا) یہ   آرٹ کی  کوئی خدمت نہیں۔

 (ب) ان سے کوئی انسانی ہمدردی کا پیغام نشر نہیں ہوتا۔

 (ج) ان سے کسی مظلوم یا ستم رسیدہ انسان یا گروہ کی تکلیف کا اشارہ نہیں ملتا۔

(د) ان سے اربوں مسلمانوں کے دِل ضرور زخمی ہوتے ہیں۔

 (ہ)  یہ معاشرہ میں ایک طبقہ کے خلاف نفرت انگیزی  اور اس کا جواب بھی  نفرت ۔ ا ور بعض صورتوں میں پُر تشدّد نفرت ہے۔

(و) یہ انسانی فطرت کے لئے ممکن ہی نہیں کہ ایک ہستی  کو اپنی جان سے عزیز سمجھنے والے اور اسی ہستی  کو دہشت گردی کی علامت سمجھنے والے باہم  محبت کی پینگیں بڑھا سکیں۔  اور کثیر الجہتی معاشروں میں  اس  محبت کی ضرورت ہر دانش مند پر واضح ہے۔

(ز) جس ہستی کے  متعلق کارٹون بنائے گئے ہیں اس کی سیرت طیّبہ ۔ اور اس ہستی سے  باشعورمحبت  کی حقیقت سے  یہ نا آشنائی بھی ہے۔

۔6۔ یہ کارٹون اینٹی سمیٹک بھی ہیں۔اسلام ایک سمیٹک مذہب ہے۔ جس مقدس ہستی کے یہ کارٹون بنائے گئے ہیں وہ بائیبل کی پیشگوئی ” تیرے بھائیوں”کے مطابق حضرت ابراہیم کی اولاد        سے ہیں۔

۔7۔ جناب میکروں کی حکومت کو اس قانون کی حمایت کی خاطر غیر قانونی طرزِ عمل اختیار  نہیں کرنا چاہیئے۔ فرانس میں  دوسرے شہریوں کی طرح  مسلمان ٹیکس دہندگان کی رقم بھی  حکومت کے پاس ایک امانت ہے  ۔ان کارٹونوں کو سرکاری  طور پر سپانسر کر کے بڑی بڑی عمارتوں پر ڈسپلے کرنے میں مسلمانوں کے ٹیکس کا بھی کچھ حصّہ شامل  ہے۔  بظاہر یہ نہایت  معمولی بات ہے لیکن قانوناً حکومت اس قسم کے ایکشن میں شامل نہیں ہو سکتی جو ” تخریبی “ہو۔

۔8۔  جواباً مسلمانوں کے  ردِ عمل  کا    دائرہ    بہت وسیع ہے  جبکہ  ان کا محور بہر صورت   ایک ہے اور وہ اپنے نبی سے محبت ہے ۔ اس محبت  پر  اعتراض کسی  جاہل کو ہی   ہو سکتا ہے۔  یہ بات درست ہے کہ اظہار محبت کے بھی کچھ ضوابط ہیں اور خاص طور پر حضرت خاتَم النبیین ﷺ  کی محبت کے ضوابط سب سے زیادہ مہذب ۔ پُر اثر  ۔ تشدّد سے پاک اور پائیدار ہونے چاہیئں۔

۔9۔ فرانس کی حکومت کو  اپنے شہریوں کی حفاظت اور ہر قسم کے  مجرموں کے خلاف قانون کے مطابق کروائی کرنی چاہیئے۔ لیکن  ظلم کی ابتداء کرنے والوں کے ہاتھ روکنا  بھی    اس کا   اہم فرض ہے۔ موجودہ صورت میں حکومت فرانس  اُلٹا۔ اپنے ہی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے۔    ظالمِ  اوّل کے ہاتھ کو  مضبوط کرنے پر  ڈٹ گئی ہے۔

۔10۔ علمی طریقہ سے مہذب الفاظ میں  اسلام کے محاسن اور مخالفین اسلام کی نگاہ میں   معایب پر گفتگو کرنے کا ہر ایک کو حق حاصل ہے لیکن  یہ  درست نہیں کہ محض توہین اور گھٹیا ذوق کی تسکین  کی غرض سے  کارٹون بنانے کی  نہ صرف کھلی چھٹی دی جائے بلکہ ( اپنے ہی   قانون   کی خلاف ورزی کرتے ہوئے )سرپرستی کی جائے۔

مسلمانوں کے دل کی آواز ۔ کاش یہ مہذب کہلائے جانے والوں کے دلوں تک رسائی حاصل کر سکے اور وہ سمجھ بھی سکیں کہ

” ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کرسکتے ہیں ، لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کرسکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں ” ۔