آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

نوائے وقت  ۔4 مئی، 2021میں شائع شدہ وزیر اعظم عمران خان کے بیان کے مطابق، ختم نبوت پر یورپئین یونین کی کوئی بات نہیں مانی جائے گی۔

 محترم مولانا عمران خاں صاحب !۔ کسی نے بھی ا ٓپ کو ختم نبوت قانون پر سمجھوتے کے لئے نہیں کہا اور نہ ہی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ مسائل سے یہ “لغو اندازِ انحراف “ہے ۔آپ کے اس بیان سے جہلاء کو بھی ہرگز تسلی  نہیں  ہو سکتی ہے ۔ آپ بے شک الٹا لٹک جائیں اور خانہ کعبہ کے ہزار طواف کریں آپ کو یہ مولوی  یہودی ایجنٹ سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔ یورپی یونین آپ کو ختم نبوت کے قانون پر نہیں بلکہ  ملک میں انسانی حقوق کی پامالی پر، جو آئے روز  ہو رہی ہیں، اور ہزارہا سانحات رونما ہو چکے ہیں ان پر تنبیہ کر رہی ہے ۔

اور خیال رہے کہ اکیسویں صدی میں داخلی معاملات کی حدود پر باڑ  تقریباً معدوم ہو چکی ہے۔  بلوچوں کے ساتھ ختم نبوت  کا کوئی ایشو نہیں ہے، ہندو سکھوں پارسیوں وغیرہ سے   ختم نبوت کا کوئی ایشو نہیں ہے ، آپ ان پر ہی ظلم بند کروا دیں۔ درحقیقت یورپی پارلیمنٹ کو تو عام انسانی حقوق پر مہذبانہ تشویش ہے کیونکہ لوگ توہین رسات کے جھوٹے مقدمات میں جھوٹے مسلمانوں کے ذریعہ پھنسائے جاتے ہیں ، ملک کا لیگل سسٹم اس معاملہ میں مظلوم کی فریاد کو نظر انداز کرتا ہے اور بے گناہ  ملزمان جھوٹے گروہوں کے دباؤ کے تحت سالہا سال تک جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیئے جاتے ہیں۔ شگفتہ  کا جھوٹا مقدمہ جس میں وہ سات سال سے ناحق پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد اپیل کی سماعت کا انتظار کر رہی ہے۔   ان پڑھ  جھاڑو پھیرنے والی عورت انگریزی زبان میں توہین رسالت پر مشتمل فقرات  اور وہ بھی مدعی کے  موبائل پر  نہیں بھیج سکتی ۔

ختم نبوت کا ایشو ضرور ہے  اور یہ احمدیوں کے ساتھ ہے۔ کیونکہ وہ ختم نبوت کی ایسی تشریح تسلیم نہیں کرتے جو اکثریت مسلمانوں کی کرتی ہے۔   اور قرآن کریم کی مجموعی تعلیم سے متصادم ہے۔ظلم کے جواب میں احمدی البتہ مظاہرے یا احتجاجی توڑ پھوڑ نہیں کرتے  ۔ لاہور میں احمدیوں کی دو مساجد پر فائرنگ سے لگ بھگ سو شہید ہوگئے اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔ مبشر لقمان کے پروگرام میں جماعت کے نمائیندہ نے فقط یہی کہا کہ “ہم معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں”اصل مسئلہ یہ ہے آپ کے مولوی اسلام کی غلط تشریح کی وجہ سے دینِ اسلام کو ساری دنیا میں بدنام کرتے ہیں اور لاڈلے پاکستان کے اندر پبلک کے لئےسراسر مصیبت بن کر تو ابھرتے رہتے ہیں لیکن دوسرے ممالک کی انتظامیہ ان  “معزز مہمانوں” کو  ہرگزبرداشت نہیں کر سکتی ۔یہ بھی درست ہے کہ مسلمانوں کی غلط حرکتوں پر رد عمل میں توہین رسالت کا ارتکاب بھی شامل ہو جاتا ہے۔

لہذا ایشو ختم نبوت نہیں۔ آپ نبی کریم ﷺ کو خدا بھی مان لیں تو مغرب کو غرض نہیں بلکہ ردِ عمل کے طور پر توہین رسالت کا ارتکاب اصل ایشو ہے۔ اس معاملہ میں احمدی مسلمان علی الاعلان امت مسلمہ کی ہم نوا  ہی نہیں بلکہ جوابی ردِ عمل کے لئے پیش رو بھی ہے اور اس کے لئے  مہذب انداز میں پُر زور طریقے سے  مذمت اور متبادل کے طور پر سیرۃ البنی ﷺ کے اجلاسات منعقد کرکے آنحضور ﷺ کا حسین اسوہ دنیا کے سامنے پیش کرتےہیں اور جب غیر مسلموں کو   تصویر کا دوسرا رُخ دیکھنے کو موقع ملتا ہے تو ان کا تعصّب بھی زائل ہو تا ہے اور حضرت نبی کریم ﷺ کی  سچی عزت ان کے دلوں میں بھی پیدا ہوجاتی ہے۔

محترم مولانا عمران! آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں پاکستان سے باہر نکلیں اور علماء سمیت جرمنی ،فرانس، یوکے وغیرہ  میں بڑے پیمانے پر سیرت النبی ﷺ کے جلسے منعقد کریں۔ مغرب کو اس حُسن  حقیقی سے آشنا کریں   اوراسلامی حُسنِ اخلاق سے دنیا کے دل جیتیں۔ بڑا وسیع میدان پڑا ہے، نکلیں اور کام کریں مگر پوائنٹ سکورنگ کے طور پر مزید منافقت کے ساتھ بات کا رخ ختم نبوت کے طرف نہ موڑیں۔آپ سے پہلے یہ تجربہ کرنے والوں کا انجام سامنے رکھ کر پھر ، ختم نبوت کے سیاسی شہید ہونے کا فیصلہ کریں، ورنہ صرف سیاسی موت ہی ملے گی، سیاسی شہادت کا موقع نکل چکا ہے۔