تازہ غزل
پہاڑ ، شہر ، سمندر ، چمن براۓ فروخت
لگا دیا گیا نوٹس ، وطن براۓ فروخت
ہمارے پاس سبھی کچھ ہے بیچنے کو یہاں
ہیں کھیت،صحراء و کوہ و دمن براٸے فروخت
دکان ایسی چلے گی کہ کیا چلے گی ہوا
بس اس کے بورڈ پہ لکھ دیں کفن براۓ فروخت
وہ میرا بازو پکڑ کر سڑک پہ لے آیا
سدا لگاتا پھرا ، یار ِ من براۓ فروخت
کچھ احتراز نہیں کچھ بھی بیچنے سے ہمیں
ہمارے ہاں ہی میسر ہے فن براٸے فروخت
زر ِخرید کے معیار کے مطابق ہے
یونہی نہیں ہوا میرا چلن براۓ فروخت
ہیں دام لگتے فقط آج کل ضمیروں کے
کبھی رہے ہیں یہاں تن بدن براٸے فروخت
بہت ہی سستے میں لیجئے وہاں سے خندہ جبیں
جہاں کہیں نظر آٸے شکن براٸے فروخت
وگرنہ دنیا انہیں سانبھ سانبھ رکھتی ہے
یہیں پہ ہوتے ہیں سرو و سمن براۓ فروخت
مرے لیے تو مری ماں ہے ، میرا بچہ ہے
ترے لیے تو ہے ٹھہرا سُخن براٸے فروخت
حضور صرف زمینیں نہیں ، ہمارے یہاں
ہیں دختران ، عزیزان من براٸے فروخت
فرحت عباس شاہ
متعلقہ
عجیب مافوق سلسلہ تھا۔۔۔از ، ڈاکٹر رفیق سندیلوی
غزل ، از ، طاہر احمد بھٹی
Are Wills really Free?