آئینہ ابصار

علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی موضوعات

قوی صاحب شرطیہ مٹھے تھے، از طاہر احمد بھٹی

سوشل میڈیا پر شئیر کریں

یادش بخیر ، جاتی سردیاں تھیں سن چورانوے کہ اور سہیل احمد اور قوی خان صاحب کی مین کاسٹ کے ساتھ سٹیج ڈرامہ اسلام آباد آیا ہوا تھا ، شرطیہ مٹھے۔۔۔
ریڈیو کے چند احباب کے ساتھ ہم شام کو راول ڈیم سے اتر کر سامنے والے موٹل میں جا وارد ہوئے جہاں یہ ساری کاسٹ قیام پذیر تھی۔
ریڈیو کی رسمی باتوں کا جواب سہیل احمد دیتے رہے اور میرے سینگ قوی صاحب کے ساتھ اس لئے سما گئے کہ مرحوم شعر کا ذوق بھی بہت اچھا رکھتے تھے۔
تقریباً ہر تیسرا جملہ چست اور ہر پانچواں فقرہ استفہام انگیز ہو تو وہاں شو بز کی تو ویسے ہی، بقول یوسفی صاحب ، چیں بول جاتی ہے۔ سو ایسا ہی ہوا اور ہماری گفتگو ایکٹر ، سٹار یا میڈیائی سطحیت سے آگے بڑھ گئی اور ایک دوسرے میں دلچسپی اور متوازن نفوذ کا سا ماحول بن گیا۔ کہنے لگے کہ شام تو فارغ ہے مگر آپ معلوم نہیں کتنی دور رہتے ہیں۔ ہم نے عرض کی کہ سڑک ہی پار کرنی ہو گی، ہم آپ کے ہمسائے ہیں، یہیں راول ٹاؤن میں۔
فرمایا تو کب آئیں؟
عرض کیا کہ اگر مختلف رنگ و نسل کی کراکری سے مسئلہ نہ ہو تو آج ہی رات کو ۔۔۔ ورنہ کل تک ہم نیا ڈنر سیٹ لے آئیں گے۔
بس تو پھر تو آج ہی آئیں گے۔
شام سات بجے قوی صاحب واقعی آ گئے اور فرشی نشست گاہ پر چائے کے ساتھ چوہدری محمد علی مضطر صاحب مرحوم کی نظم ، تنہائی سے آغاز ہوا۔
خیال کے گورے گال پہ نکلا تنہائی کا تل
لفظوں کے درویش کھڑے ہیں اٹھ عزت سے مل
یاد کی گت پر ناچ رہے ہیں دروازوں کے دل
بس مصرعے کیا تھے، گویا اندرون ذات کے طبلے پر تھاپ سی تھی جس کی لے تیز ہوتی چلی گئی اور پہلی ملاقات کے حجاب کو سمیٹتی چلی گئی۔
معلوم ہوا کہ ایکٹنگ تو آئس برگ کی ٹپ ہے۔ ان سے تو بہت سے موضوعات پر دیر تک بات ہو سکتی ہے۔
ربوہ اور احمدی حوالہ آج کل کے شہرت طلب بالشتیوں کے لئے مسئلہ ہو سکتا ہے مگر قوی صاحب کے لئی ایک اور افق اور جہان دیگر جیسی بات تھی۔
ان کا قد چھو ٹا تھا مگر وہ خود بالشتئے نہیں تھے ۔ اصولی بات کے ساتھ اتفاق و اختلاف کے لئے ذاتی تفہیم اور اپنے ضمیر کی مدد لیتے تھے اور معاشرتی ردو قبول کے پیمانوں سے اوپر اٹھ چکے تھے۔
ہمارے چہرے دم صبح دیکھتے آ کر
کہ ہم نے رات نہیں زندگی گزاری ہے
اس کیفیت پر بہت دیر بولتے رہے۔
کتابوں میں سے خلیج کا بحران اور نظام نو، اور زھق الباطل کی جلدیں پسند کر کے کہا کہ اس پر کچھ لکھ کے دو بھئیُ۔۔۔۔ ایسے کیسے لے جائیں۔
رات کے تین بج رہے تھے اور یہ سمے کسی بڑے نشتر کا متقاضی تھا۔
میں نے لکھا،
پیارے قوی صاحب،
میں آپ کے لئے کوئی ایسے جملے نہیں لکھنا چاہتا جن پر میں بیس سال بعد گواہی نہ دے سکوں، آج رات بھر کی گفتگو کے بعد میں کہوں گا کہ مجھے آپ میں سے خشیت کی خوشبو آئی، اللہ کرے میرا یہ تاثر سچا ہو!
والسلام
جوتے پہن کے سیدھے کھڑے ہوئے اور کلائی کی گھڑی میں سے وقت اور تاریخ دیکھ کر کہا کہ آج چالیس سال سے زیادہ ہو چکے شو بز میں۔۔۔ اور آج پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ ہم کہیں گئے تو
ایک تو وہاں کسے نے تصویریں نہیں بنوائیں، اور دوسرا یہ کہ نہ صرف یہ کہ آتو گراف نہیں مانگے بلکہ الٹا خود آٹو گراف دے کر رخصت کیا ہے۔
ان کا اشارہ اس تحریر کی طرف تھا جو میں نے کتابوں پر لکھی تھی!
فرمانے لگے آپ سے تو اب ہمیشہ واسطہ رہے گا۔
پھر جب جب وہ اسلام آباد آئے یا ہم لاہور گئے تو ملاقات رہی اور اوریجنل موضوعات پر دل کھینچ قسم کی باتیں ہوئیں، گلیمر اور شوبز کبھی ہمارے درمیان بھی نہیں آیا اور زیر گفتگو بھی نہیں آیا۔
ہوائے ترک تعلق چلی ہے دھیان رہے
مگر یہ بات ہمارے ہی درمیان رہے
انتہائی ذمہ دار اور گھر دار قسم کے آدمی تھے جن کو شوبز میں آنکھیں بنا کے پھینک دیا گیا تھا اس لئے وہ عمر بھر اس کے اندھیروں میں بصارت بھرتے رہے، یعنی
دریا کی ساری عمر روانی میں کٹ گئی
یہ تصویر ہماری شادی کے بعد پہلی بیٹی کے ساتھ ان کے گھر لاہور کی ایک یاد اور بولڈ اور گہرے رنگوں والی گفتگو کا ایک دھندلا سا نقش ہے۔
ناپائیدارئٖ دنیا پر گفتگو کرنے والا فنکار حقیقت کے جہان کو سدھار گیا۔۔۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مر د تھا