لے آیا سر خار وہ مرہم میں گوندھ کر
جب بھی مرے بدن پہ اسے آبلہ ملا
پانی حسین کو نہ ملا ایک بوند بھی
اپنوں کا خون ٹپکا ہوا جا بجا ملا
مشکل میں بے بسی نے مجھے ایس آ لیا
جیسے کہ دشمنوں کا کوئی قافلہ ملا
کیا ہے یہ ماجرا کہ خرابوں کے دیس میں
جو شخص بھی ملا وہ بہت پارسا ملا
بے حال کر نہ خود کو عبث اس کی چاہ میں
فورا” بدل گیا جب اسے آسرا ملا
غیروں میں جب بکا تو ملا تخت و تاج مصر
حزب برادراں سے تو یوسف کو چاہ ملا
(فرید یوسف، بیلجیئم )
متعلقہ
A Lunch And The Echoes In Between by: Mona Farooq
انسانیت کی دربدری کا نام جنگ ہے، از، سعدیہ احمد، نیویارک
Is this Tip or the Iceberg itself ? By: Mona Farooq USA